ڈاکٹر سبطین شاہ سینیٹر مشاہد حسین سید کو اپنے تحقیقی مقالے کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔
اسلام آباد (پ۔ر)
سیاسی و سماجی امور کے محقق اور صحافتی شخصیت ڈاکٹر سید سبطین شاہ جو سنٹرل یورپ کی یونیورسٹی آف وارسا (پولینڈ) کے شعبہ سیاسی علوم و بین الاقوامی مطالعات سے فارغ التحصیل ہیں، نے گذشتہ روز اسلام آباد میں سینیٹ آف پاکستان کی خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید سے ان کی رہاشگاہ پر ملاقات کی۔
اس موقع پر ڈاکٹر سید سبطین شاہ نے پاکستان کی قومی سلامتی پر انتہاپسندی کے اثرات کے بارے میں اپنے تحقیقی مقالے کا خلاصہ مشاہد حسین سید کو پیش کیا جس میں قومی سلامتی کے سیاسی، عسکری، اقتصادی، ثقافتی اور انسانی پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں گذشتہ چالیس سالوں کے دوران مذہب کے نام پر انتہاپسندی سے نقصان پہنچا ہے۔ تحقیق کا دورانیہ پچھلی چار دہائیاں ہیں یعنی جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت سے لے کر وزیراعظم عمران خان کی آمد تک مذہب کی آڑ میں انتہاپسندی سے جڑے تمام واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سید سبطین شاہ نے تین سو تیس صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی مقالے میں انتہاپسندی، قومی سلامتی اور سیاسی تبدیلی جیسے موضوعات کا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے اور عقلی ترجیحات، حقیقت پسندی اور سماجی تعمیر جیسے نظریات کے تناظر میں مذہب کے نام پر انتہاپسندی اور اس حوالے سے ریاستی پالیسیوں کا جائزہ لیا ہے۔ مقالے میں انتہاپسندی کو مذہب کے نام پر دہشت گردی کا اصل محرک بتاگیا ہے اور بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل اور حالات اور بعض خصوصی سیاسی، سماجی و اقتصادی مفادات، رحجانات اور ترجیحات کو پاکستان میں تشدد اور انتہاپسندی کے فروغ کی وجوعات قرار دیا ہے۔
اس مقالے میں دو بنیادی خیالات پیش کئے گئے ہیں۔ پہلے تحقیقی دعوے میں بتایا گیا ہے، “ریاست کی ناکامی اور مقامی متشدد انتہاپسند عناصر کا بیرونی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کٹھ جوڑ نے مذہب کے نام پر انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے۔” اس خیال کو جزوی طور پر ثابت کیا گیا ہے کیونکہ ان دو عوامل کے علاوہ دیگر بہت سے وجوعات بھی انتہاپسندی کے فروغ کا باعث بنیں۔ تحقیق کے نتائج میں دوسرے تصور کو کافی شواہد کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ یعنی “مذہب کے نام پر پچھلے چالیس سالوں میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی، تشدد اور دہشت گردی نے پاکستان کی قومی سلامتی کے سیاسی، عکسری، اقتصادی، ثقافتی اور انسانی پہلوؤں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔” تحقیق میں قومی سلامتی کے مذکورہ پہلوؤں کی الگ الگ تشریح کی گئی ہے اور ان پر مذہب کے نام پر انتہاپسندی کے اثرات کو مختلف ملکی و غیرملکی حوالہ جات (تحقیقی مواد، مقالات، کتب، علمی رسائل، جرائد، انٹرویوز، رپورٹس و سرکاری و غیرسرکاری اسناد وغیرہ) کے ساتھ کو تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔
اس تحقیق کو چارحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں سرد جنگ یا افغان جنگ کا زمانہ، دوسرا حصہ اس کے بعد کا زمانہ، تیسرا حصہ گیارہ ستمبر کے بعد کے واقعات اور چھوتھا حصہ بہار عرب کے بعد جس میں داعش جیسے عناصر نے مقامی انتہاپسندی کے تعاون سے پاکستان سمیت کئی ملکوں کو اپنا مسکن بنانے کی کوشش کی ہے۔
اس مقالے میں متعدد سفارشات کے ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ اگرچہ پاکستانی فوج نے بہار عرب کے بعد ضرب عضب اور رد فساد جیسے سخت فوجی اقدامات کرکے مبینہ تشدد اور دہشت گردی کو روکنے کی کوشش کی ہے لیکن ملک میں مذہب کے نام پر انتہاپسندانہ سوچ کو ختم کرنے کے لیے سافٹ ایکشن کی ضرورت ہے۔ خاص طور ملکی وحدت کے لیے ریاست کو نئی فکر پیدا کرنا ہوگی اور قائداعظم محمد علی جناح کے اعتدال پسندانہ افکار پر عمل کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر سید سبطین شاہ کی مشاہد حسین سید کے ساتھ ملاقات کے دوران پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر سید سبطین شاہ کی دلچسپی کے موضوعات بین الاقوامی تعلقات، امن کا فروغ و تنازعات کی روک تھام، عالمی سیاسی اقتصادیات، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء، ایشیاء پیسفیک، مذہب کی آڑ میں انتہاپسندی، شدت پسندی، متشدد فرقہ واریت اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر ان کے تحقیقی مقالات بین الاقوامی علمی جریدوں اور رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔