پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر آپ نظر ڈالیں تو حزب اختلاف کی پارٹیوں سے لیکر اقتدارتی پارٹی تک آپ کو بہت ہی کم سیاست دان نظر آئیں گے جو جمہوری روایات پر مبنی سیاست کو اچھی طح سمجھتے ہوں ، اور اس سیاست کو سمجھنے کے بعد دبنگ طریقے سے اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھتے ہوں – اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھتے ہوئے اکثر اوقات انہیں اپنی ہی پارٹی اور اپنی ہی پارٹی کے ممبران سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے – حالانکہ میرٹ پر دیکھا اور پرکھا جائے تو ان کے بولے گئے الفاظ عوام کے مسائل کی صحیح عکاسی کر رہے ہوتے ہیں –
فواد چوہدری کے 22 جون کو وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی – فواد چوہدری کے انٹرویو کو سیاسی پنڈت ، حکومتی پارٹی ارکان اور حزب اختلاف پارٹیوں کے ارکان اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں –
ہمارے خیال میں فواد چوہدری نے یہ انٹریو دے کر 3 بڑے کام کر دئیے –
1 – حقیقی عوامی نمائندے کی ترجیحات ہمشیہ عوامی ، ملکی مسائل ہوتے ہیں – نہ کہ پارٹی کے مفادات –
2- جمہوری طرز حکومت میں فیصلہ سازی کا اختیار اگر منتخب نمائندوں سے لیکر غیر منتخب لوگوں کے حوالے کیا جائے تو وہ نظام ملکی پیداوار ، ترقی کو ساکت کر دیتا ہے –
3 – حکومت کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ عام پاکستانی اور پارٹی ورکر حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں اور ان معاشی پالیسیوں پر عمل کرنے کے طریقہ کار پر نا خوش ہے – اس لیے ان معاملات کو جلد از جلد رائٹ ٹریک پر لایا جائے-
فواد چوہدری کے پورے انٹریو کا کہ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ملکی انتظامی ڈھانچے کو چلانے کے لیے ملکی آئین کی ہر شق پر مکمل عمل کرنا پڑے گا –
سیاسی پارٹیوں کا اندرونی تنظیمی ڈھانچہ انتہائی ناکارہ ، یعنی پارٹیوں کے اندر حقیقی جمہوریت نہیں –
پارٹیوں کے اندر حقیقی جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے حتمی فیصلے کا اختیار ایک شخص کے پاس ، جس سے اصل عوامی نمائندے سیاسی منظر نامے میں اپنا حقیقی کردار ادا کرنے میں ناکام اور ملک ترقی ، خوشحالی کی جانب بڑھنے بجائے ایک جگہ کھڑا-