پوری دنیا میں جہاں جمہوری نظام کے تحت حکومتیں چل رہی ہیں -ان ممالک میں کورونا وبا میں بھی پارلیمان متحرک، جہاں حکومت اور اپوزیشن مل کر کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے متحد ہوکر متفقہ پالیسیاں بنا رہی ہیں -یہ ممالک قومی مفادات میں اپنے لوگوں اور صنعتوں کو بڑے بڑے معاشی پیکج دے رہے ہیں –
جیسے ناروے کی پارلیمان ( حکومت نے نہیں ) نے کورونا 50 ارب یورو کے پیکج کا فیصلہ کیا – جرمنی ک پارلیمان
( حکومت نے نہیں ) نے 1000 ارب یورو کے پیکج کا فیصلہ کیا –
ان ممالک میں وفاقی سطح سے لیکر مقامی سطح تک کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے اور اس کے تدارک کیلئے صرف اور صرف منتخب نمائندے جیسے وزیراعظم ، وزیر صحت ، وزیر ٹرانسپورٹ ، وزیر محنت و افرادی قوت، اور نچلی سطح پر مقامی ناظم پبلک میں آکر حکومتی پالیسیوں کے متعلق عوام اور میڈیا میں بتا رہے ہیں- –
بیورکریسی اور غیر منتخب لوگوں کو قطعی اجازت نہیں کہ وہ پبلک میں یا میڈیا میں حکومتی پالیسیوں کی تشریح کریں یا اپنا نقطہ نظر بیان کریں – بیورکریسی ، فوج اور صحت کے عملے کا کام صرف منتخب نمائندوں کے کیے ہوئے فیصلوں پر عمل کرنا ہے –
بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو اوپر سے لیکر نیچے تک بس غیر منتخب لوگ ، غیر منتخب مشیر ، فوج ، ڈی سی اور ای سے ہی حکومتی پالیسیوں کو میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں –
عوام کے ٹیکسوں پر چلنے والی پارلیمان کا اس اہم ترین ایشو پر کوئی اجلاس ہی نہیں ہو رہا ، اب اس میں عام ووٹر کس کو قصور وار گردانے ، ان کو جو کہتے ہیں ، کہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا کو- یا ووٹ کو عزت دینے والوں کو، یا نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے والوں کو؟؟
اگر قومی معاملات اسی طرح چلانے تھے ، تو پھر 1200 کے قریب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران پر مشتمل جمہوری سیٹ اپ کی کیا ضرورت تھی یا ہے ؟؟