اس وقت دنیا میں یہ سوال عام ہے کہ کرونا وائرس کیا ہے، یہ بیماری کس طرح اور کیونکر وجود میں آئی ہے؟ انسانی اذہان میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ کرونا کے بعد کی دنیا کرونا سے پہلے کی دنیا سے کتنی مختلف ہوگی؟ آیا دنیا کا نیا نظام اس بین الاقوامی وبا کی وجہ سے بنیادی سیاسی، سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کا حامل ہوگا؟
پچھلے تین چار ہفتوں کے دوران جب سے کرونا وائرس کے عالمی اثرات میں تیزی آئی ہے، کئی ملکوں کے بین الاقوامی امور کے ماہرین، مفکرین اور دانشوروں نے دنیا کے نئے متوقع نظام کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ پورے دنیا میں پھیلی ہوئی اس وبا کے متوقع اثرات کے بارے میں ہرکوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔ کئی ماہرین اس بات پر بڑے تعجب کا اظہار کررہے ہیں کہ اس وائرس نے آناً فاناً دنیا میں غیریقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔ طب کے ماہرین بھی اس وبا کے بارے میں عوام الناس کو اپنے قیمتی مشوروں سے نواز رہے ہیں۔
یہ تمام آراء اور مشورے اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس وائرس نے دنیا میں ایک ھیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس وبا نے بلاتفریق کمزور سے کمزور اور طاقتور سے طاقتور ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس بیماری نے امیر و غریب کا فرق بھی نہیں چھوڑا بلکہ ہرکسی کو پریشان کردیا ہے۔ بیماری کے خطرات سے زیادہ اس کے خوف نے لوگوں میں سخت اضطراب پیدا کردیا ہے۔ کروڑوں افراد کو اس وائرس نے گھروں تک محدود کردیا ہے اور لاکھوں لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔.
اس سارے تناظر میں کچھ مذہبی طبقات بھی ہیں جو کرونا وائرس کو خدا کی طرف سے ایک کڑی آزمائش قرار دے رہے ہیں اور کچھ اسے عذاب الہیٰ سے محسوب کررہے ہیں جس طرح کہ اس سے پہلے والی قوموں پر سخت عذاب ان کے گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتے رہے ہیں۔ یہ طبقات لوگوں کو استغفار اور توبہ کی طرف مدعو کررہے ہیں۔ یہ بات صرف مسلمانوں میں نہیں بلکہ مسیحیت سمیت دیگر بڑے ادیان کے ماننے والوں میں بھی پائی جاتی ہے۔
اگرچہ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک عذاب الہی ہے یا ایک کڑی آزمائش ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اس وائرس نے دنیا کے کئی مذہبی طبقات کو استغفار اور توبہ کرنے پر مجبورکردیا ہے اور کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو دین سے دور ہوگئے تھے، اس وائرس کی شدت نے ان کو دین سے نزدیک کرکے انہیں ذکرالہیٰ کرنے پر مامور کردیا ہے۔
اس کے علاوہ اس وائرس کے خوف نے لوگوں میں خوف خدا پیدا کردیا اور ان میں سے کئی لوگوں میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ اجاگر کردیا ہے۔ ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے کبھی غریب کی طرف مہر و محبت سے دیکھا تک بھی نہیں تھا، اب ان کے دلوں میں کچھ خوف خدا پیدا ہوا ہے اور اپنی دولت سے کچھ رقوم خرچ کرکے غریبوں اور ناداروں کے لیے راشن خرید رہے ہیں۔
ایسے میں ایک طبقہ یہ دعویٰ بھی لے کر سامنے آیا ہے کہ یہ وائرس ایک عالمی سازش ہے جو دنیا پر اپنا غلبہ حاصل کرنے والی لابیوں نے تیار کی ہے۔ یہ طبقہ اس وائرس کو ایک جراثیمی ہتھیار قرار دے رہا ہے جسے عمداً لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کا ملتا جلتا الزام چین نے امریکہ پر اور امریکہ نے چین پر بھی لگایا ہے۔ چین کے ساتھ اس کے ھم خیال ممالک روس، ایران اور شمالی کوریا بھی ہیں جن کے فیصلہ سازوں میں بھی اس وائرس کے بارے میں اس طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے یا قدرتی طور پر پیدا ہوگیا ہے۔
اس وائرس کے پھیلاؤ سے کئی سال قبل اس طرح کے وائرس کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی جاچکی ہے اور ۹ سال قبل ایک فلم بھی اس طرح کے وائرس کے پھیلاؤ کے امکان کے بارے میں بنائی گئی تھی۔
اس تناظر میں ایک مکتبہ فکر یہ بھی ہے جس کے خیال میں کرونا وائرس کی آڑ میں دنیا میں پیدا ہونے والی بدنظمی اور افراتفری کے پیچھے کوئی نہ کوئی طاقت موجود ہے جو اس ساری صورتحال سے استفادہ کرے گی۔
ان ہی خیالات کے حامل کچھ لوگ اس وائرس کے پھیلاؤ کو ایک نئی عالمی جنگ کی ابتدا تعبیر کررہے ہیں جس میں ایک نادیدہ دشمن نے پوری انسانیت پر تھاجم برپا کردیاہے۔ اس بارے میں بھی وثوق سے نہیں کہاجاسکتا ہے کہ کیا تیسری عالمی جنگ اس نئی شکل اور نئے انداز میں ہوگی جس میں معلوم نہیں کون کس سے لڑ رہا ہے البتہ اس جنگ کے نتیجے میں یہ واضح ہوجائے گا کہ اس جنگ کا فائدہ کس کو پہنچے گا۔
اگر اسے ہی ایک تیسری عالمی جنگ تصور کیا جائے تو اس نکتہ نظر کی تقویت کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ پچھلے چار عشروں کے دوران ہم نے دنیا کے مشرقی خطوں میں بے شمار تنازعات اور لڑائیوں کا مشاہدہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ امریکی ماہر سموئیل ہانٹنگٹون کے اس نظریہ کو بھی پھیلانے کی بھی کوشش کی گئی جس میں انہوں نے ’’تہذیبوں کے مابین ٹکراؤ‘‘ پر زور دیا تھا۔ اس دوران افغانستان کی لڑائی، القاعدہ اور داعش کا وجود، شام و عراق میں خانہ جنگی اور چند سالوں سے یمن اور سعودی عرب کی لڑائی قابل ذکر ہیں جن میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ یہ خیال بھی موجود ہے کہ کیا یہ سارے تنازعات جن میں سے کئی ابھی تک وجود رکھتے ہیں، ایک تیسری عالمی جنگ کی تیاری کی مشق تو نہیں تھی۔
اگرچہ تہذیبوں کے مابین ٹکراؤ کے نظریہ پر ابھی تک پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا البتہ اس کرونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کے مابین سماجی فاصلہ ضرور پیدا ہوگیا ہے۔ لوگ اپنے ہی علاقوں میں ایک دوسرے سے اجنبی ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ملکوں اور قوموں کے مابین بھی پروازوں کے منقطع ہونے سے فاصلے بڑھ گئے ہیں لیکن امید ہے کہ یہ فاصلے عارضی ثابت ہوں گے اور دنیا ایک بار پھر اپنی اصلی حالات میں واپس آجائے اور ملکوں اور قوموں کے مابین رابطے برقرار ہوجائیں۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا مقصد ایک گلوبل ڈیپ سٹیٹ (ایک عالمی خفیہ ریاست) کے قیام کی کوشش ہے جو دنیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے سکے۔ ڈیپ سٹیٹ کی اصطلاح ترکی سے متعارف ہوئی تھی جہاں سیاسی حکومت کے پیچھے فوجی اور سول بیوروکریسی موجود رہی جسے ایک دہائی قبل طیب اردگان نے آخرکار ختم کیا اور اپنی مضبوط حکومت قائم کرکے ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو دفن کردیا۔ اسی طرح امریکہ کے متعلق بھی کہاجاتا ہے کہ وہاں بھی ڈپپ سٹیٹ کام کررہی ہے جو اصل میں حکومت کو چلاتی ہے جس میں مختلف سیاسی نیٹ ورک اور طاقتور لابیاں شامل ہوتی ہیں۔
اس ساری روش میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ نئی متوقع دنیا میں نیا سیاسی و اقتصادی نظام سامنے آئے گا جس میں علوم، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات پر کنڑول ممکن ہے۔ اس تناظر میں پانچویں نسل یعنی ففتھ جنریشن میں انسانی زندگی کا انحصار تین اہم عناصر پر ہوگا جنہیں کمپیوٹرکا سا ذہن (سائبر مائند)، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اور جدید حیاتیاتی عمل (بائیوسینتھیسس) کہاجاتا ہے۔
اس طرح کےلوگوں کے خیال میں اس سازش کا مقصد انسان کے ذہن اور جسم کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس مقصد کے مذکورہ بالا تین ابزار بہت اہمیت کے حامل ہے۔ یعنی سائبری ذہن، مصنوعی ذہانت اور جدید حیاتیاتی عمل کے ذریعے انسانی زندگیوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا شامل ہے۔
اس طرح کے خیال رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے ذریعے نہ صرف پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں لیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے دنیا کی آبادی کو بھی اپنے مخصوص مقاصد کے تحت قابو کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ان منصوبوں کے تحت انسانی اذہان ک علاوہ انسانی آبادی، انسانی نسل کی پیداوار اور انسانی جسم کے ہارمونز کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے گا۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان سارے خیالات میں کہاں تک سچائی ہے لیکن یہ کہاجاسکتا ہے کہ انسان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک انتہائی اہم اور نئے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے وہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا یعنی یہ وائرس انسانی خیالات میں، انسانی رویوں میں، انسانی اقدار اور عادات میں اور انسانی آبادیوں اور انسان سے جڑے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی مسائل میں ضرور تبدیلی لائے گا۔ ایک جملے میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ ان حالات میں دنیا کا نظام ضرور تبدیل ہونے والا ہے۔ امید ہے کہ یہ تبدیلی انسانیت کے لیے مثبت ثابت ہو اور ایک دوسرے کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلوں کو دور کرے۔ اگرچہ انسان اس وقت اس وبا کی وجہ سے عارضی سماجی فاصلوں سے گزر رہا ہے لیکن اس سے یہ احساس ضرور پیدا ہوگا کہ انسان ایک دوسرے کے لیے کتنا اہم ہے۔ اگرچہ توقع ہے کہ سائنسدان بہت جلد اس بیماری کی ویکسین تیار کرلیں گے لیکن اس وبا کا اضطراب اور تکلیف طویل عرصے تک انسان کو یاد رہے گی۔
نوٹ: مضمون نویس بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور سینئر صحافی ہیں۔
(اورسیز ٹریبون کا مضمون نویس کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)