وارسا (خصوصی رپورٹ)
پولینڈ کے شہر چیونستوخووا کے نزدیک کوزیگوووے کے علاقے میں پھنسے ہوئے ایک ایرانی ٹرک ڈرائیور کے لیے آن لائن اپیل پر صرف ۹ دنوں میں پچاس ہزار یورو جمع ہوگئے ہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ فریدین نامی یہ ڈرائیور کچھ دن پہلے کشمش (خشک میوہ جات) سے بھرا ہوا اپنا بھاری ٹرالر لے کر پولینڈ پہنچا۔
پولینڈ میں ٹرالر کو خالی کرنے کے بعد وہ جمہوریہ چیک جارہا تھا تاکہ وہ سے کچھ سامان لاد کر واپس ایران جائے لیکن پولینڈ کی حدود میں ہی اس کے ٹرالر کا انجن فیل ہوگیا۔
بین الاقوامی روٹ پرمٹ کے حامل اس ڈرائیور کو انجن کی خرابی کے باعث مجبوراً سڑک کے کنارے رکنا پڑا۔
کئی لوگوں کو اس نے روک کر مدد کی درخواست کی اور کئی لوگ خود رک اس سے پوچھتے رہے۔غرض یہ کہ ہرآنے جانے والا اسے مدد کی پیشکش کرتا رہا۔
یہ علاقہ دارالحکومت وارسا سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔
پولش ٹرک ڈرائیورز سمیت وہاں کے بہت سے مقامی لوگوں نے خراب انجن کی مرمت کے لیے یورپ میں کئی ورکشاپوں سے رابطہ کیا لیکن بتایا گیا کہ یہ پرانا امریکی ساخت ٹرک ہے اور اس کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں کیونکہ مقامی مارکیٹ میں اس کے پرزرے میسر نہیں۔
یہ ٹرک گذشتہ ۹ دن سے وہاں رکا ہوا ہے اور اس دوران کچھ پولش باشندوں نے اس ایرانی ٹرک ڈرائیور کی مدد کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جس کے نتیجے میں اس مختصر مدت میں پچاس ہزار یورو کے عطیات جمع ہوگئے۔ مہم چلانے والے لوگوں نے اس ایرانی ڈرائیور کا اکاؤنٹ کھول کر اس میں یہ رقم جمع کی ہے اور ڈرائیور کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ اس رقم سے اسے نیا ٹرک خرید کر دیں گے۔ پولینڈ کے علاوہ یورپ اور شمالی امریکہ سمیت لوگوں نے اس ڈائیور کی مدد کے لیے رقوم روانہ کیں۔
اس ہیوی ٹرالر ڈرائیور کے لیے بھاری رقوم جمع کرنے کے علاوہ اس کے لیے وہاں پر آسائش رہائش اور کھانے پینے کا بھی بندوبست کیاگیا ہے۔
ایران سے سوشل میڈیا کے ذریعے ڈائیور کی بیٹی نے اپنے پیغام میں پولش باشندوں کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے انسانی ہمدردی کا پرجوش مظاہرہ کرتے ہوئے پردیس میں اس کے والد کی مدد کی ہے۔
پولش میڈیا اور ایرانی ٹی وی چینلز نے یہ خبر نمایاں طور پر نشر کی ہے۔
پاکستانی ریسرچ سکالر و صحافی سید سبطین شاہ جو ان دنوں اپنے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں مرکزی یورپ میں ہیں، نے بتایاکہ انسانی ہمدردی کا جذبہ لوگوں میں ابھی تک موجود ہے۔ انسانی ہمدردی کا تعلق انسانیت سے ہے اور یہ ہرقسم کے نسلی اور قومی تعصب سے بالاتر ہے۔
بقول ان کے، اس واقعے سے پولش لوگوں کی فراخدلی اور ان کی طرف سے انسانی اقدار کی پاسداری ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ مہمانوازی اور دوسری کی مدد کا جذبہ ہمیشہ شامل حال رہنا چاہیے۔