(تحریر ، محمد طارق )
درالسما ہاکنگ پوائنٹ کے آغاز پر پہنچنے کے بعد ، آغاز پوائنٹ پر لگے سائن بورڈ کو پڑھا تو وہاں پر ہاکنگ راستے کا مکمل نقشہ دیا ہوا تھا – کہ راستہ کس طرح کا ہے ، کہاں کہاں مشکل ترچھا ٹریک ہے ، کہاں سیڑھیاں ہیں ، کہاں قدرے آسان راستہ ہے ، کہاں پر وقفہ اور پہاڑی وئیو پوائنٹ ہیں – ٹوٹل کتنا راستہ ہے اور پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے کتنا وقت لگے گا -سائن بورڈ کے مطابق ٹوٹل راستہ 3 کلومیٹر ہے ، مشکل ٹریک ہونے کی وجہ سے 2 یا 3 گھنٹے پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے لگ سکتے ہیں – 5 منٹ میں یہ ساری معلومات پڑھنے کے بعد میں نے پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا – پہلا ٹریک 700 میٹر تک تھا، جو قدرے آسان تھا- 700 میٹر کے بعد آبادی شروع ہوگئ- یعنی ترچھی پہاڑی پر مکانات بنے ہوئے ، تنگ مشکل سڑک اور سڑک کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں بنی ہوئی – میں ان سیڑھیوں پر چلنے لگا، جوں جوں اونچائی کی طرف جارہا تھا توں توں مشکل سیڑھیاں سامنے آرہی تھی – 900 کے قریب سیڑھیاں چڑھنے کے بعد 300 میٹر کا پہاڑی راستہ طہ کرنے کے بعد پہلا وقفہ اور وئیو پوائنٹ ملا- اس وقفہ پوائنٹ پر 5 منٹ کا وقفہ کیا، وقفہ پوائنٹ پر موجود ایک مقامی جوڑے سے ملاقات کی ، ان سے پہاڑی کے متعلق چند معلومات لی اور آگے چل پڑا- اس جوڑے میں موجود لبنانی خاتون نے پہاڑی کے متعلق معلومات دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہاڑی جو سیاحوں کے لیے ہاکنگ ٹریک ہے – دراصل ایک مذہبی راستہ ہے ، جس پر ہر سال گرمیوں میں مقامی عیسائی آبادی چڑھ کر حج کرتے ہیں اور لیڈی آف لبنان کی سنت پوری کرتے ہیں – لیڈی آف لبنان سال میں کافی دفعہ اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے پہاڑی کی چوٹی پر موجود چرچ میں جاکر عبادت کرتی تھی – لیڈی آف لبنان کے پیدل چلنے کی رسم کو مقامی آبادی نے حج کا رتبہ دے دیا ہے، اس لیے ہر سال ہزاروں افراد پہاڑی کی چوٹی پر جانے کے لیے پیدل چلتے ہیں اور ثواب دارین حاصل کرتے ہیں –
پہلے وقفہ پوائنٹ کے بعد ابھی 1700 میٹر کا مشکل ترچھا فاصلہ رہتا تھا- یہاں تک پہنچنے کے لیے میں نے 20 منٹ استعمال کیے – یہاں سے دوبارہ میں پہاڑی کے اوپر اپنے ٹارگٹ پوائنٹ پر پہنچنے کے لیے تیزی سے چلنے لگا- اس راستہ پر گھنے درخت تھے ، سایہ تھا اور کچا مشکل ٹریک – مسلسل تیزی سے چلتے چلتے میں 45 منٹ میں پہاڑی کی چوٹی پر اپنے ٹارگٹ پوائنٹ پر پہنچ گیا- موبائل فون کی گھڑی پر نظر ڈالی تو دیکھا اس وقت شام کے 4 بج کر 50 منٹ ہوئے تھے – یعنی یہ 3 کلومیٹر مشکل کا راستہ میں نے تقریبا 1 گھنٹے میں طہ کیا – پہاڑی کی چوٹی لیڈی آف لبنان پہنچ کر میں نے پانی پیا ، ایک چاکلیٹ کھایا-
15 منٹ کا وقفہ کیا، پھر پہاڑی سے نیچے اترتے وقت ہانکنگ ٹریک پر چلنے لگا- پہاڑی سے نیچے اترنا زیادہ مشکل تھا، کیونکہ راستہ ترچھا ہونے کی وجہ سے چلنے کی رفتار خود بخود تیز ہوجاتی ہے، جس سے بندہ قلابازیاں کھاکر بری طرح گر سکتا ہے – بحرحال میں چلنے کی رفتار کو قابو میں رکھ کر ، نظر راستے پر رکھ کر پہاڑی سے تیزی سے اترنے لگا – اگر راستے میں مجھے بیروت شہر اور سمندر کا وئیو دیکھنا پڑا، تو پھر مجھے ہر حال میں مکمل طور پر بریک لگا کر کھڑا ہونا پڑگیا – پہاڑی سے نیچے آتے وقت 2 وقفے 3، 3 منٹ کے کیے ، تھوڑا شہر کا نظارہ کیا ، سانس لی ، پانی پیا اور پھر چل پڑا – اس طرح چلتے چلتے میں تقریبا 45 منٹ میں نیچے پہاڑی کے آغاز پوائنٹ پر شام پونے چھ بجے پہنچ گیا ، اسی وقت سورج بھی غروب ہونا شروع ہو گیا – پہاڑی کے آغاز پوائنٹ درالسما سے ایک کلومیٹر پیدل چلنےاور نیچے آنے کے بعد ایک گلی سے ٹیکسی لی اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوا – ہوٹل پہنچتے ہی سیدھا ہوٹل کے سومئنگ پول میں آگیا ، سومئنگ پول میں 30 منٹ تیراکی کرنے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد ہوٹل میں اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا – تو راستے میں ہوٹل کی لابی میں 7 دوسرے ساتھی مل گئے ، انہوں نے مجھ سے پہاڑی پر ہانکنگ کی مختصر داستان سنی ، خاص طور پر انور احمد صاحب کہنے لگے بئی بیروت ٹور سے آپ صحیح لطف اندوز ہو رہے ہیں – ساتھ ہی ہمایوں کبیر صاحب کہنے لگے کہ میں جلدی جلدی تیار ہوں سب لوگ صرف میرا ہی انتظار کر رہےہیں کہ طارق آئے تو ہم شام کا کھانا کھانے چلے – میں جلدی جلدی اپنے کمرے میں گیا ، کپڑے تبدیل کیے اور نیچے ہوٹل لابی میں آکر دوسرے 14 ساتھیوں کے ساتھ پیدل ہی نزدیکی بازار میں ریسٹورنٹ کی طرف روانہ ہوئے- ریسٹورنٹ پہنچ کر ہر ساتھی نے اپنی اپنی پسند کا کھانا کھایا ، مشروبات پی اور مختلف ٹولیوں میں شہر کی گلیوں میں مٹر گشت کرنے لگے –
جبکہ میں اور ذوالفقار حیدر کاسلیک کے علاقے بیروت میں جہاں ہمارا ہو ٹل تھا ، اس کے قریب 24 گھنٹے کھلا شیروٹ کیفے میں چلے گئے- اس کیفے میں ہم تین ساتھی طارق، اعجاز، حیدر پہلے بھی دوبار جاچکے تھے – اس کیفے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا ماحول بڑا پرسکون ، میوزک کی آواز دھیمی دھیمی ، میوزک بھی روایتی لبنانی اور عربی ، کام کرنے والے عملے کی اچھی سروس ، کیفے کے اندر اور باہر بیٹھنے کے آرام دہ صوفے اور اچھی کوالٹی کی کرسیاں ، روایاتی لبنانی کھانوں کے ساتھ مغربی کھانے ، ہر قسم کے مشروبات ، مناسب قیمتیں اور سب سے اہم شے روایتی لبنانی حقہ ، اس حقے کے لیے مختلف اقسام کے تمباکو میسر تھے – کیفے میں ہمیں رات گئے بیٹھنا پڑتا تھا کیونکہ وہ حقہ میں اتنا تمباکو ڈال دیتے تھے کہ وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا – ظاہر جب آپ زیادہ دیر حقہ پیئے گے تو پھر پیاس بھی لگے گی ، پھر آپ کو اور مشروب آرڈر کرنا پڑے گا- لیکن ایک بات ہے حقہ ہوتا ان کا مزیدار تھا –
اکثر اس کیفے میں آنے اور چند دوسرے میوزک شو دیکھنے سے ہم نے یہ بات نوٹ کی کہ لبنانی معاشرہ انتہائی آزاد خیال ہے ، جس میں یورپ کی طرح خواتین و مرد میں کوئی تفریق نہیں – کیفے میں ، ریستورانوں میں اور میوزک شوز کی جگہوں پر خواتین و مرد رات گئے بلکہ صبح 5 بجے تک بیٹھے رہتے ہیں ، حقہ اور ممنوعہ مشروب پیتے رہتے ہیں ، اکثر میوزک شوز میں روایتی لبنانی رقص رات کے 1 بجے شروع ہوتے تھے – ایسی چیزیں دیکھ کر پاکستانی کالم نگار ایازامیر کی باتیں یاد آنے لگتی تھی ، جس کا ذکر وہ اکثر ٹی وی شو ، کالم میں کرتے ہیں – کہ پاکستان میں اگر آپ نے بیرون سرمایہ کاروں یا سیاحوں کو لانا ہے تو پھر ایسا ماحول بھی ان کو دینا پڑے گا ، جس سے وہ کام کے علاوہ شام کے وقت چند لمحے تفریح کر سکے –
اگلی صبح ناشتے پر 4 ساتھیوں امتیاز وڑائچ ، طارق، اعجاز احمد اور سیفر بشیر نے لبنان کے دوسرے بڑے شہر طرابلس (یاد رکھے لبیا کے دارالحکومت کا نام بھی طرابلس Tripoli ہے ) جانے کا پروگرام بنایا- زیادہ تر دوسرے ساتھی مظاہروں کی وجہ سے بڑی سڑکیں بلاک ہونے پر طرابلس جانے سے انکاری تھے – ہم چاروں نے 100 امریکی ڈالر میں آنے جانے کے لیے بیروت سے طرابلس ٹیکسی لی اور ہوٹل سے طرابلس کی طرف چل پڑے – بیروت سے طرابلس کا فاصلہ 63 کلومیٹر ہے – ہوٹل سے بڑی شاہراہ تک ہم 10 منٹ میں پہنچ گئے ، بڑی شاہراہ پر چند کلومیٹر چلنے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور بڑی شاہراہ سے اتر کر شاہراہ کے ساتھ آبادی کی تنگ گلیوں میں ٹیکسی لے آیا- ساتھ ہی ہمیں بتائے جارہا تھا کہ آگے ملک میں جاری مظاہروں سے بڑی سڑک بند ہے ، اس لیے اب ہمیں گلیوں ، چھوٹی سڑکوں کے ذریعے جونیا (بیروت) شہر سے باہر نکل کر دوبارہ بڑی شاہراہ لینا پڑے گی –
ٹیکسی ڈرائیور گاڑی چلاتے چلاتے تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا جونیا بیروت علاقے کے ایک اور اونچے مقام پر آگیا – جوں جوں ٹیکسی اوپر کی طرف آرہی تھی ، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ بیروت شہر کے پاس میدانی علاقہ انتہائی کم ہے – اس لیے یہاں کے مقامی باشندوں نے شہر کے ایک طرف پھیلے اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان ، اور پہاڑوں کی چوٹی پر مکانات تعمیر کئے ہوئے – ساتھ ہی مقامی حکومت نے ان اونچے اونچے پہاڑوں میں بسنے والوں لوگوں کے لیے سڑکیں ، پانی، ہسپتال ، کوڑے کرکٹ کو سنبھالنے کے لیے مکمل سہولیات مہیا کی ہوئی ہیں – اس قسم کی سہولیات ہمیں بیروت کے پرانے شہر میں دیکھنے کو نہیں ملی –
اس تفریق کے بارے میں ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ ان اونچے پہاڑوں میں جو مکانات بنے ہوئے وہ امیر لوگوں کی ملکیت ہیں ، یہ امیر لوگ لبنان میں نہیں رہتے ، بلکہ زیادہ تر تارکین وطن لبنانی ہیں جو برازیل اور افریقہ کے ممالک میں ہیں انہوں نے یہاں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی ہوئی – انہوں نے یہ مکانات اپنے رشتہ داروں کو دئیے ہوئے یا لبنان میں مقیم غیر ملکی کاروباری لوگوں ، غیر ملکی حکومتوں کے عملے کو کرائے پر دئیے ہوئے ہیں – پہاڑ پر بنے ہوئے مکانات کے درمیان جو جگہیں خالی پڑی تھی ، وہاں پر بڑے سائنسی طریقے مقامی باشندوں نے کاشت کاری کی ہوئی تھی – جس میں وہ مختلف اقسام کے پھل اور سبزیاں پیدا کر رہے تھے – لبنان اپنے اردگرد ممالک کی نسبت سب سے زیادہ پھل اور سبزیاں پیدا کرتا اور دوسرے ممالک کو برآمد کرتا ہے –
ایک گھنٹے تنگ گلیوں ، پہاڑوں کے راستوں سے ہوتے ہوئے ہم دوبارہ بڑی شاہراہ پر آگئے جو طرابلس جاتی ہے – اس شاہراہ پر کم ٹریفک ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی طرابلس شہر کی حدود میں داخل ہوگئے – طرابلس شہر کی حدود کی بڑی شاہراہ کو مظاہرین نے دونوں اطراف سے بند کیا ہوا تھا – مظاہرین جس میں زیادہ تر نوجوان لڑکے تھے وہ ٹریفک کو کنٹرول کر رہے تھے – وہ کسی بھی گاڑی کو شہر کے اندر اور باہر جانے نہیں دے رہے تھے – ہمارا ڈرائیور اصرار کرنے لگا کہ اب ہم واپس چلتے ہیں ، آگے شہر میں حالات ٹھیک نہیں ، لیکن ہم بضد تھے کہ اتنی دور آکے شہر طرابلس کو دیکھے بغیر واپس نہیں جانا- اسی اثنا میں ہمارے ساتھی سیفر بشیر نے ٹریفک سیکورٹی پر مامور نوجوان سے بات کی کہ ہم کتنی دور سے آئے ہیں ، ہم کہاں سے ہیں اور ہم طرابلس شہر کو کیوں دیکھنا چا رہے ہیں – سیفر بشیر کی بات سن کر ٹریفک سیکورٹی والے لڑکوں نے ہمیں طرابلس شہر میں جانے کی اجازت دے دی ،ساتھ ہی ان لڑکوں نے ہمیں متنبہ کیا کہ واپس آتے وقت ہم ان سے رابطہ کریں تاکہ وہ ہمارے لیے بیروت واپس جانے کا راستہ کھولے گے –
ان غیر سرکاری سیکورٹی دستوں سے نکلنے کے بعد ہم سیدھے طرابلس شہر کے مرکزی چوک النور سکوائر کی طرف چل پڑے ، 10 منٹ بعد ہم النور سکوائر کے قریب پہنچ گئے- النور سکوائر کے قرب و جوار میں سب بازار ، سڑکیں بند تھی – جبکہ سکوائر میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین جوش و خروش سے ثورت انقلاب انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے – ہم رش اور احتیاط کی وجہ سے النور سکوائر کے دھرنے میں شریک نہ ہوئے – النور سکوائر کے قریب ایک بڑی مسجد میں عصر کی نماز پڑھی اور واپس بیروت کی طرف روانہ ہوئے –
طرابلس سے بیروت واپسی بڑی شاہراہ کی بجائے پرانی سڑک سے ہوئی ، ہم بیروت واپس اپنے ہوٹل میں شام 7 بجے پہنچ گئے – ہوٹل پہنچتے ہی ہمایوں کبیر صاحب کی طرف سے پیغام ملا کہ آج شام کا کھانا ہوٹل میں ہی ہے ، لحاظ سب ساتھی رات 9 بجے کمرہ نمبر 703 پہنچ جائیں – پورے سفر میں کمرہ نمبر 703 خصوصی اہمیت کا حامل رہا ، اس کمرے کی خصوصی بات ، ایک تو یہ کمرہ دوسرے کمروں کی طرح 2 ہال پر مشتمل تھا ، لیکن ساتھ اس کی بڑی گیلری تھی – اس کمرے میں ہمارے 2 سفری ساتھی منور احمد اور جسویر سنگھ رہ رہے تھے – ان دونوں نے کمرے کا ایسا ماحول بنا دیا تھا ،کہ سفر کے دوران کوئی بات کرنا ہو ، کسی دوسرے ساتھی سے ملنا ہو یا کہیں مل کر جانا ہو تو سب سے پہلے اس کمرے میں آنا پڑتا تھا – منور احمد اور جسویر سنگھ بڑے محمان نواز نکلے – دونوں نے اپنی جیب سے کمرے میں فروٹ ، چپس ، مشروبات ، چائے کافی مقدار میں خرید کر رکھی ہوئی تھی ، جب بھی اس کمرے میں پہنچو میوزک کے ساتھ چائے ، کافی ہمیں ملتی تھی – اکثر رات گئے یہاں خوب محفل جمتی تھی – کارڈز کھیلے جاتے ، سیاست ، سماجیات ، ثقافت ، پر خوب بحث ہوتی – فنون لطیفہ اور مذاق سنسن کرکٹ کلب ممبران کا طرہ امتیاز رہا، اس کے بغیر تو کوئی دن نہیں گذرتا- جیسے سب ساتھی آج رات 9 بجے کمرہ 703 پہنچے تو آگے چکن کڑاہی ، لبنانی روٹیاں، ہری مرچ سے سجا سلاد تیار ملا- چکن کڑاہی میں ہری مرچوں نے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا تھا – کیونکہ پچلھے 7 دن سے سب ساتھی اپنا کھانا کھانے کو ترس رہے تھے – کھانا کھانے کے بعد جب سب نے منور احمد اور جسویر سنگھ سے پوچھا یہ سب کچھ کیسے آپ نے کر لیا – تو انہوں نے بتایا کہ پنج ستارہ ہوٹل کے باغیچے میں کام کرنے والے انڈین مزدوروں کو انہوں نے بازار سے ہانڈی کا سودا خرید کردیا، ان کو کھانا بنانے کی مزدوری دی تو انہوں نے یہ کھانا تیار کرکے ہمیں دے دیا ، بلکہ کل بھی وہ ہمارے لیے رات کا کھانا تیار کریں گے – اس لیے ان کے یہاں کمرہ 703 میں دوبارہ دعوت ہے – منور احمد نے ہمیں جب 2 دن کا ٹوٹل کھانے کا خرچ بتایا تو سب ساتھی حیران ہوگئے – کیونکہ مقامی ریستورانوں سے کھانے کی نسبت یہ کھانا انتہائی سستا اور ذائقہ دار تھا – اس سفر کے آخری دن کچھ ساتھی بیروت پرانے شہر کی سیر کو نکل گئے – کچھ نے ہوٹل میں آرام کیا – ساتھ ہی صبح ناشتے پر ایک مینٹگ ہوئی کہ اگلا سیاحی سفر کس ملک کا ہونا چاہیے، اس سیاحی سفر کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے – لبنان میں جاری مظاہروں کی وجہ سے سرکاری تاریخی ، ثقافتی مراکز بند ہونے سے ہم بیروت کے اکثر مقامات نہ دیکھ سکے – لیکن یورپ کی مصروف زندگی سے 9 روز سب ساتھیوں نے اچھا خاصہ ریلکس کیا اور زندگی کے چند لمحات اپنی مرضی سے گذار ے – اس سفر میں جو ساتھی ہمارے شریک سفر رہے ، ان میں سجاد حسین شاہ، امتیاز احمد وڑائچ ، ا فضال احمد، اعجاز احمد، شہزاد احمد، سید انور احمد، منور احمد، ذوالفقار حیدر، سیفر بشیر، کامران صادق ، ہمایوں کبیر ملک ، جسویر سنگھ، نبیل مغل اور محمد طارق شامل تھے –
لبنان عرب ممالک کے باشندوں کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں کیلیے کئی اور حوالوں سے بھی پر کشش حیثیت رکھتا ہے۔ جن میں سرِ فہرست یہاں کا سیاحت دوست ماحول ہے۔بحرِ اوقیانوس کے سنہری ساحل اور دنیا کے ہر شہر، ہر ملک اور ہر تہذیب کے باشندے کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھنے والا ایک کاسموپولیٹن ماحول ، جس کا سہرا لبنان کی بین المذہبی آبادی اور برداشت، رواداری اور احترام کے اصولوں پہ قائم لبنانی معاشرے کے سر ہے۔
لبنان کی سرزمین زراعت کے لیے موزوں ہے مگر زراعت پر انحصار نہیں کرتی۔ صنعت بھی لبنان کے لیے کبھی مناسب نہیں رہا کیونکہ اس کے پاس خام مال کی کمی ہے اور تیل کے لیے بھی دوسرے عرب ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً لبنان نے اشیاء کی جگہ خدمات کی پیداوار میں بہت ترقی کی ہے- جیسے بینکاری،سیاحت، تعلیم وغیرہ۔
لبنانی ثقافت بہت سی تہذیبوں کا مرقع ہے۔ ان میں فارسی، یونانی، رومی، عرب، ترک، فرانسیسی اور لبنانی ثقافت شامل ہے۔
نوے فیصد سے زیادہ لوگ پڑے لکھے ہیں۔ لبنان کے کھانے بھی بہت مشہور ہیں۔ مسیحی آبادی میں ناچ گانے کا بھی رواج ہے جو اب مسلمانوں میں بھی پھیل رہا ہے –
لبنان کی موسیقی عرب دنیا میں بہت مقبول ہے- آرٹ کے علاوہ لبنانی شاعری اور ادب بھی اچھا مقام رکھتی ہے۔
مشہور فلسفی اور شاعر جبران خلیل جبران کا تعلق لبنان ہی سے تھا۔ اس کے علاوہ لبنان کتابوں کی طباعت میں بھی شہرت رکھتا ہے۔ عرب دنیا میں چھپنے والی بیشتر کتابیں لبنانی ناشرین چھاپتے تھے اور اب مصر بھی اس مقام میں لبنان کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔
لبنان میں برسوں کی خانہ جنگی، اسرئیلی چڑھایوں اور سیاسی عدم استحکام نے یہاں کی صنعت و پیداوار کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہاں سیاستدانوں کی لوٹ مار کی کہانیاں بھی آپ کوویسے سُننے کو ملتیں ہیں جیسے ہمارے پاکستان میں بدعنوانیوں کے قصے۔یعنی حکومت غریب لیکن حکومت چلانے والے ارب پتی-