پہلی قسط —-
(تحریر ، محمد طارق )
2018 کی طرح 2019 میں بھی نارویجین ایلیٹ کرکٹ لیگ جیتنے کے بعد سنسن کرکٹ کلب کے پرانے ممبران اور کھلاڑیوں نے کسی دوسرے ملک کی سیر کرنے کا پروگرام بنایا- ٹیم ممبران کی متفقہ رائے سے اس بارے قرعہ لبنان کے شہر بیروت کا نکلا – مشرق و مغرب کے حسین امتزاج سے بنا ہوا یہ شہر مختلف روایتوں ،تہذیبوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔بیروت ایک تہذیبی مرکز ہونے کے علاوہ لبنان کا دار الحکومت بھی ہے۔
20 اکتوبر 2019 کو ہم نے بیروت کے سفر کا پروگرام بنایا ہوا تھا ، لیکن 17 اکتوبر کو لبنان کے مختلف شہروں ، بالخصوص بیروت میں حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوگئے- مظاہرے شروع ہونے کی بڑی وجہ لبنانی حکومت کی طرف سے ٹیلی فون سروس اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر چلنے والی رابطہ کاری کی آیپ وائٹس آپ پر ٹیکسز کا نفاذ تھا- مظاہرین نے مظاہروں کے دوران نہ صرف حکومت لبنان کی طرف سے نئے ٹیکس کے اجراء کو جلد از جلد ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا- بلکہ لبنان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے حکومت سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کر دیا – لبنانی وزیراعظم سعد ہیراری نے بیروت میں بے شمار لوگوں کی مظاہروں میں شرکت کو دیکھتے ہوئے 1 دن بعد ہی نئے ٹیکس کے اجراء کو واپس لے لیا –
دوسری طرف ہمارا 14 افراد پر مشتمل گروپ اوسلو، ناروے سے بیروت جانے کے لیے شش و پنج میں مبتلا ہوگیا – کہ ان حالات میں بیروت جانا ٹھیک رہے گا کہ نہیں -کیونکہ عرب ممالک کی تاریخ بتا رہی تھی کہ یکدم شروع ہونے والے مظاہرے کسی بڑے علاقائی، سیاسی ، فوجی بحران کو جنم نہ دے دیں – انہی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ایک گروپ ساتھی نبیل مغل صاحب نے بیروت میں ہمارے لیے بک ہوا پنج ستارہ ہوٹل سے رابطہ کیا کہ بیروت میں اب حالات کیسے ہیں – ہوٹل کے رابطہ کار عملے نے نبیل مغل صاحب کوبتایا کہ بیروت میں ابھی حالات نارمل نہیں ہوئے – اگر آپ آنا چاہتے ہیں تو آپ لوگ اپنی ذمہ داری پر آئیں – سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے -مظاہروں کی وجہ سے آپ کو بیروت کے اندر اور بیروت کے اردگرد کی سڑکیں بند مل سکتی ہیں – ساتھ ہی ہمارے ایک اور ساتھی سیفر بشیر نے اپنے ساتھ کام کرنے والی لبنانی خاتون سے بیروت کے حالات جاننے چاہے – تو اس خاتون نے سیفر بشیر صاحب کو مشورہ دیا کہ اس وقت لبنان کا سفر کرنا پرخطر ہے – اس دوران میں نے بھی اپنے طور اپنے ایک لبنانی دوست سے معلومات لی تو – اس دوست نے بھی یہ بتایا کہ بیروت میں مظاہروں کی وجہ سے بازار ، سکول اور کچھ سرکاری ادارے بند ہیں، روڈ بلاک ہیں – مگر سیکورٹی نقطہ نظر سے کوئی خطرے کی بات نہیں – اس لیے آپ خود فیصلہ کر لے کہ ابھی بیروت جانا چاہیئے یا نہیں – 3 مختلف آراء سننے کے بعد کچھ دوستوں نے اس سفر کو ملتوی کرنے کی تجاویز پیش کردی ، جبکہ چند دوستوں نے ہر حال میں بیروت جانے کی حمایت کر دی – سفر پر جانے سے چند گھنٹے پہلے زیادہ ساتھیوں نے بک کئے ہوئے ٹکٹس اور پروگرام کے مطابق بیروت جانے کے حق میں ووٹ ڈال کر سفر کی تیاری کر لی – اس طرح 20 اکتوبر کو 13 ساتھیوں کے گروپ نے اوسلو سے بیروت کے لیے بذریعہ فرینکفرٹ فلائٹ لے لی – ایک ساتھی نبیل مغل صاحب لندن سے برائےراست بیروت کے لیے روانہ ہوئے –
بیروت ائیرپورٹ پر کسی قسم کی مشکلات کے بغیر ہم بیروت سنٹر سٹی سے 20 کلومیٹر دور جونیا قصبے میں واقع اپنے ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے –
بیروت ائیرپورٹ پر اور اس کے اردگرد ہمیں جگہ جگہ آرمی ، پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کے اہلکار نظر آئے –
بیروت ایئرپورٹ سے باہر آنے جانے کی سڑکیں کھلی ہوئی ملی -جیسے ہی ہماری گاڑیاں بیروت شہر کے وسط میں پہنچی ، تو اس وقت سب بڑی سڑکیں بند تھی ، صرف چند چھوٹی سڑکیں اور کچھ بڑی سڑکوں کے ایک طرف راستے کھلے ہوئے ملے –
بڑی سڑکوں اور چوراہوں پر لبنانی باشندے لبنانی جھنڈے اٹھائے ہوئے ملی نغمے گانے کے ساتھ ساتھ ثورة ثورة (یعنی انقلاب انقلاب ) کے مسلسل نعرے لگا رہے تھے –
ہوٹل میں تھوڑا آرام کرنے اور رات کا کھانے کے بعد ہمارے ہوٹل کے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر جونیا علاقے کے بازار سہوا میں لبنانی لوگوں نے ایک پنڈال سجایا ہوا تھا – جب ہم تین دوست اعجاز احمد، محمد طارق ، ذوالفقار حیدر رات کے 11 بجے وہاں پہنچے تو وہاں پر جشن کا سماں تھا ، پنڈال ایک بڑی دو راہ شاہراہ پر لگا ہوا تھا- پنڈال میں جوش و خروش تھا، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں لبنانی جھنڈے اٹھا ئے اسٹیج سے کی گئی تقاریر، نظموں ، ملئ نغموں پر مسلسل نعرے لگانے کے ساتھ ، رقص بھی کیے جارہے تھے –
اسی طرح کے دھرنے، پنڈال بیروت کے بہت سے مقامات پر جاری تھے – بلکہ عوامی حقوق کی جدوجہد کی ایسی ہوا چلی ہوئی تھی – کہ لبنان کے دوسرے شہروں،طرابلس ، سیدا، ٹائر میں بھی دھرنے ، مظاہرے جاری تھے – مظاہرے میں شرکت کرتے ہوئے ہم نے مشاہدہ کیا کہ مظاہروں کو 90 % لوگوں کی حمایت حاصل ہے – ان مظاہروں کے انتظامات نوجوان کررہے تھے –
ان مظاہرین کا سب سے بڑا اور فوری مطالبہ یہ تھا ، کہ حکومت وقت ابھی مستعفی ہو، نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان جلد ہو – دوسری طرف وزیراعظم سعد ہریری نے اپنی مخلوط حکومت کی کابینہ کے ساتھ مل کر لبنانی عوام اور مظاہرین کے سامنے ایک نیا پلان رکھ دیا – اس پلان میں سعد ہریری نے کہا کہ ان کی حکومت 2020 سال کے بجٹ میں کچھ سرکاری ملازمین ، وزراء کی تنخواہوں
اور پینشن میں 50 % کمی کرے گی – لوڈشیڈنگ پر جلد قابو پالیا جائے گا- قومی ٹیلی فون کمپنیوں کی جلد نج کاری شروع کی جائے گی – سعد ہریری کی حکومت کے خیال کے مطابق اب انہوں نے عوام کا مطالبہ پورا کر دیا ہے ، لحاظ اب مظاہروں کو ختم ہو جانا چاہیے – لیکن ایسا نہ ہوسکا- بلکہ مظاہروں میں اور شدت آگئی ، ساتھ ہی بڑی عمر کے لوگ بھی مظاہروں میں شریک ہونا شروع ہوگئے – مظاہرین نے حکومت لبنان کی طرف سے جاری کردہ نئے معاشی پلان کو یکسر مسترد کر دیا اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعادہ کیا –
بیروت میں روزانہ جگہ جگہ عوامی مظاہروں کی وجہ سے عام زندگی کے کام کاج مکمل طور پر بند تھے – شاپنگ سنٹرز ، سبزی منڈیاں ، ورکشاپس تعلیمی ادارے، میوزیم، تاریخی مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند تھی ، جس کی وجہ سے لبنان میں موجود سیاحوں کو ان جگہوں پر جانے اور دیکھنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا – دوسری طرف مقامی تاجر، کاروباری لوگ، کام کرنے والے مزدور ایسی مشکالات سے قطعی پریشان نہ تھے – یہ لوگ ہمیں بتا رہے تھے کہ موجودہ حکمرانوں کی ناقص پالیسوں ، ان حکمرانوں کی اقرباء پروری ، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے لبنان میں عام لوگوں کی زندگی پریشانیوں سے دوچار ہے – اب اس سے زیادہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں ہے ہارنے کے لیے – ہمارے جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم اپنے کاروبار بند رکھے گے اور مزدور کام پر بھی نہیں جائیں گے – ہم اپنی حکومت اور اسٹیس کو کے خلاف روزانہ لبنان کے مختلف شہروں کے چوراہوں پر ، شاہراہوں پر مظاہرے جاری رکھے گے –
14 افراد پر مشتمل ہمارے گروپ نے فیصلہ کیا کہ جب تاریخی ، ثقافتی ، میوزیم کے مقامات بند ہیں – تو کیوں نہ اس کی جگہ بیروت کے اردگرد کے علاقوں ، پہاڑوں کی سیر کی جائے – اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے بیروت کے شمال میں واقع پہاڑ ہارسیہ بذریعہ پیدل (ہاکنگ) سر کرنے کا پروگرام بنایا ، جب بروز منگل 22 اکتوبر کو ہم سب ہوٹل سے نکل کر ہارسیا پہاڑ کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہاڑ پر جانے والی لفٹ بند ہے ، لفٹ پر کام کرنے والے سب ورکر مظاہروں میں مصروف ہیں – کیونکہ کچھ ساتھیوں نے لفٹ لے کر ہارسیا پہاڑ پر پحنچنا تھا ، جبکہ میں اور چند دوسرے ساتھیوں نے پیدل اوپر جانا تھا – پہاڑ کی لفٹ بند ہونے اور لفٹ کے عملہ کے وہاں نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں پہاڑ کے اوپر جانے کا ہاکنگ ٹریک ہی نہ مل سکا- ٹیکسی ڈرائیور ز کے پاس بھی ہاکنگ ٹریک کی کوئی معلومات نہیں تھی – اس لیے سب ساتھیوں کو مجبورآ ٹیکسی پر ہارسیا کے مشہور تفریح اور مذہبی مقام لیڈی آف لبنان جانا پڑگیا – جس سے میر ے اور 2 تین ساتھیوں کے سوا سب ساتھی خوش ہوگئے کے پہاڑ پر پیدل جانے سے چھٹی مل گئ – لیڈی آف لبنان پہنچ کر پورے گروپ نے مختلف مقامات دیکھے ، وہاں پر موجود عیسائی مذہب کی عبادت گاہ چرچ دیکھا- چرچ کے اندر سیاح اور مقامی باشندے آرام سے اکیلے بیٹھ کر اپنی اپنی عبادت میں مصروف تھے – لیڈی آف لبنان دیکھنے کے بعد واپس ہوٹل جانے کے لیے تیار ہوئے ، تو میں نے تجویز دی کہ ہم پیدل پہاڑ سے ہاکنگ ٹریک کے راستے نیچے چلتے ہیں 6 دوست تیار ہوگئے جبکہ بقیہ 8 دوستوں ٹیکسی پر ہوٹل کے لیے روانہ ہوگئے –
جب ہارسیا پہاڑی سے نیچے پیدل اترنے لگے تو ہمیں نیچے جانے کے لیے ہاکنگ ٹریک نہیں مل رہاتھا- ہم نے ہارسیا چرچ کے عملے سے معلومات لی تو ان کے پاس مقامی ہاکنگ ٹریک کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی – اسی طرح جب کچھ اور مقامی لوگوں سے پوچھا تو ان کا جواب بھی نفی میں تھا- بلکہ زیادہ تر مقامی لوگ ہارسیا پہاڑی ہاکنگ ٹریک کے موجود ہونے سے ہی انکاری تھے – حالانکہ انٹرنیٹ پر ہارسیا پہاڑی کے ہاکنگ ٹریک کے بارے میں مکمل معلومات تھی – لیکن پہاڑ میں جنگل ، درختوں ، پہاڑی کی چوٹی پر مکانات کی وجہ، اور سڑک و راستے پختہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ہاکنگ ٹریک کے آغاز پوائنٹ کو ڈھونڈنے میں مشکلات پیش آرہی تھی – کافی دیر راستے ڈھونڈنے کے باوجود ہمیں ہاکنگ ٹریک کا آغاز پوائنٹ نہ مل سکا – کافی تگ و دو کے بعد لاحاصل کوشش پر دوسری ساتھی تنگ پڑگئے ، باالآخر سب ساتھیوں نے فیصلہ کیاکہ اب اندھیرا بھی ہونے لگا ہے ، لحاظہ ٹیکسی لی جائے اور رات ہونے سے پہلے ہمیں ہوٹل پہنچ جانا چاہیے – اس طرح ہم 6 لوگ سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے ہوٹل پہنچ گئے –
چند گھنٹے آرام کرنے کے بعد، 14 افراد پر مشتمل ہمارا گروپ،رات 8 بجے بیروت شہر کے علاقے جونیا میں واقع مشہور ریسٹورنٹ منول پہنچا-
ریسٹورنٹ مقامی لبنانی کھانوں کی ڈشز کی وجہ سے مقامی لوگوں اور سیاحوں میں یکساں مقبول تھا – لبنانی ڈنر یورپ کی طرح 3 حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ، اسٹارٹر، کھانا اور سویٹس-اسٹارٹر میں ریسٹورنٹ کے عملے نے مختلف سبزیوں ، فروٹ ، دال کی بے تحاشہ قسم کی ورائٹی ہمارے سامنے میز پر سجا دی- ان مختلف انواع و اقسام پر مشتمل اسٹارٹر کو دیکھ کر کچھ دوستوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ریسٹورنٹ کا عملہ ہماری بھوک کو اسٹارٹر سے ختم کرنا چاہتا ہے – تاکہ ہم اصل کھانا کم کھائیں – جب اصل کھانا میز پر لگایا گیا تو اسٹارٹر کھاتے وقت جو خدشہ ظاہر کیا گیا تھا ، عملی طور پر بھی ایسا ہوا کہ ڈنر کی اصل ڈش کم مقدار میں ہمیں مہیا کی گئ- کہ ایک بڑی کھلی تھالی میں لبنانی نان کے اندر مرغی ، گوشت ، کباب کی سیخیوں کے چند پیس رکھ کر ہمیں اصل ڈش دی گئی – ریسٹورنٹ کا عملہ ، منیجر اس ڈش کی بڑی تعریفیں کر رہے تھے – لیکن ہمارے 90 % ساتھی اصل کھانے میں ، کم کھانے کی مقدار ، خراب کوالٹی اور کم مصالحے دار ہونے سے قطعی مطمعن نہ ہوئے اور ڈنر کے آخری حصے یعنی سویٹس کا انتظار کرنے لگے – چند منٹ بعد ہی ریسٹورنٹ کے عملے نے دوسرے میز پر مختلف اقسام کے فروٹ، شربت اور مربعے پر مشتمل سویٹ ڈش سجا دی – سویٹ ڈش کی کوالٹی اور مقدار اسٹارٹر اور اصل کھانے سے کہیں زیادہ بہتر اور زیادہ تھی –
سب سفری ساتھیوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق سویٹ ڈش کھائی – آخر میں لبنانی قہوہ پینے اور روایتی لبنانی حقہ پینے کے بعد ساتھیوں نے مختلف ٹولیوں میں واپس ہوٹل جانے کی راہ لی اور فیصلہ ہوا کہ اب ایسے کھانوں کی جگہ جانے سے پہلے اس ریسٹورنٹ کی مکمل جانچ پڑتال کی جائیگی – کیونکہ ہم سب ساتھیوں کے خیال میں کھانے کے بل کے لحاظ سے کھانے کی کوالٹی کا معیار اور مقدار کا معیار پست تھا-
اگلے دن بیروت میں موسم ابرآلود اور بارش کا تھا – اس لیے متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آج کا پورا دن پنج ستارہ ہوٹل جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے اسی ہوٹل میں گذارا جائے – پنج ستارہ ہوٹل ہونے کی وجہ سے ہوٹل ایک بڑے رقبے پر بنا ہوا تھا – ہوٹل کے اندر مختلف کھیلوں کی سہولت بھی میسر تھی – جیسے ان آوٹ ڈور سومئنگ پول، جم ، ٹیبل ٹینس اور آوٹ ڈور سومئنگ پول کے ساتھ سن باتھ کی جگہ ، کرسیاں اور بیڈ وغیرہ – متفقہ فیصلہ کرنے کے بعد سب ساتھی اپنی اپنی پسند کی سرگرمی میں مصروف ہوگئے –
ہوٹل میں ایک دن آرام کرنے کے دوسرے دن میں نے سب سفری ساتھیوں سے گذارش کی کہ آج بیروت کے پرانے بازار الحمرا ، شہداء چوک اور دوسرے تاریخی مقامات دیکھنے چلتے ہیں – لیکن لبنان کی غیر یقینی سیاسی صورتحال ، مظاہروں سے بڑی سڑکیں بند ہونے سے ایک بھی ساتھی پرانے بازار جانے کے لیے تیار نہ ہوا – بلکہ چند ساتھی مجھے بھی روکتے رہے کہ باہر بازاروں ، سڑکوں پر حالات کشیدہ ہیں ، اس لیے خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں –
جبکہ دوسری طرف میں روزانہ مقامی انگریزی اخبارات میں آنے والی خبروں پر مکمل نظر رکھے ہوا تھا – جس سے مجھے فی الحال کوئی خطرناک بات نظر نہ آئی کہ لبنان کے کسی بھی شہر میں عوامی مظاہروں کے دوران کوئی لڑائی یا ہنگامہ ہوا ہو ، یا حکومت لبنان نے سیکورٹی فورسز کو مظاہرین پر سختی کرنے کا حکم دیا ہوا ہو – ان آخری معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اکیلا ہی ٹیکسی کے ذریعے بیروت کے پرانے ، مرکزی بازار کی جانب روانہ ہوا – دوران سفر ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ صبح کے وقت سڑکوں پر ٹریفک کے حالات قدرے بہتر ہوتے ہیں – اندرون شہر میں مظاہروں کی جگہ بھی رش کم ہوتا ہے – اس لیے اندرون شہر میں آنے جانے کے لیے کوئی خطرہ نہیں –
دن 2 بجے ٹیکسی نے مجھے بیروت شہر کے درمیان میں واقع مشہور میدان شہداء چوک کے قریب اتار دیا – شہداء چوک پر اترتے ہی میری نظر سامنے بیروت کی تاریخ مسجد محمد آل آمین پر پڑی جو شہداء چوک کے ایک کنارے پر تعمیر ہوئی ہے – میں سب سے پہلے سیدھا مسجد کے اندر گیا ، وضو کیا، ظہر کی نماز ادا کی – مسجد کے بارے میں، مسجد کے اردگرد علاقوں کے بارے میں مسجد میں موجود مقامی لوگوں سے مختصر معلومات حاصل کی – مسجد محمد آل آمین کے برآمدے کی سیڑھیوں پر مظاہرین نے لاوڈ اسپیکر لگاکر اسٹیج بنایا ہوا تھا – اسی طرح کےکئی اور لاوڈ اسپیکر اور اسٹیج شہداء چوک کے کناروں ، شہداء چوک کے درمیان میں نصب کیے ہوئے تھے – جہاں پر سیاسی ورکرز بڑے جوشیلے انداز میں عربی میں تقاریر کر رہے تھے، کچھ مظاہرین انقلابی نظمیں سنا رہے تھے – کئ لاوڈ اسپیکر سے ملی نغموں ، ترانے گونج رہے تھے – ان ترانوں پر مرد، خواتین، بچے ،، بوڑھے رقص کررہے تھے- اور ساتھ ساتھ ہر تین پانچ منٹ بعد عربی میں ثورة ثورة کے نعرے لگا رہے تھے –
جس کا مطلب ہے انقلاب انقلاب –
شہداء چوک میں مظاہرے اور احتجاج کے دوران مختلف مقامی سیاسی ، سماجی تنظمیوں کے کارکن مظاہرین کو پانی، کھانے کے وقت مفت کھانا بھی دے رہے تھے – ساتھ ہی نوجوان لڑکے لڑکیاں شہداء چوک کے کھلے میدان سے ، پنڈالوں کے اردگرد سے کوڑا اٹھا رہے تھے ، صفائی بھی کیے جارہے تھے -جاری مظاہرے میں 2 گھنٹے ٹھہرنے کے بعد محمد آل آمین مسجد کے اردگرد کی ضروری عمارات کو باہر ہی سے دیکھا ، مظاہروں کی وجہ سے ان عمارات کو جانے والے راستے سیکورٹی فورسز نے بند کئے ہوئے تھے اور عمارات کے اردگرد فوج، پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کے اہلکار کھڑے تھے – ان عمارات کو دیکھنے ، شہر کی چند گلیاں گھومنے کے بعد واپس ہوٹل کی راہ لی – شہر کے بازار، دوکانیں اور سرکاری دفاتر ورکنگ ڈے ہونے کے باوجود بند ملے –
اگلا دن جمعہ کا دن تھا – ہوٹل سے ناشتہ کرکے ہم 4 ساتھی امتیاز ورڑائچ، ذوالفقار حیدر، اعجاز احمد اور میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے بذریعہ ٹیکسی مقامی نزدیکی مسجد جانے کے لیے روانہ ہوئے – ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ جس علاقے جونیا میں ہم ٹھہرے ہوئےہیں – یہ علاقہ عیسائی اکثریت آ بادی والا ہے ، اس لیے اس علاقے میں ہوٹل کے نزدیک کوئی مسجد نہیں – ہمیں بیروت پرانے شہر کی طرف جانا پڑے گا – ہم نے ٹیکسی ڈرائیور کو کہا کہ ہمیں وہ کسی طرح اس مسجد میں پحنچا دے جہاں جمعہ ہوتا ہے – 1 گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ٹیکسی ہمیں ایک مسجد کے سامنے لے آئی- ٹیکسی سے اترتے وقت ہم نے دیکھا کہ نمازی نماز جمعہ ادا کر کے مسجد سے باہر نکل رہے ہیں – حالانکہ ہوٹل سے مسجد اتنی دور نہ تھی ، مسجد میں لیٹ آنے کی وجہ شہر میں جاری مظاہرے بنے – جس کی وجہ سے بڑی سڑکیں مظاہرین نے مکمل طور پر بلاک اور بند کی ہوئی تھی – جبکہ چھوٹی سڑکوں پر زیادہ ٹریفک ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار کم تھی – مسجد میں جمعہ کی باجماعت نماز میں ہم نہ پہنچ سکے اور ہمیں ظہر کی نماز ادا کرنا پڑ گئی – نماز سے فارغ ہوکر ہم نے مسجد کی چند تصاویر لی ، مسجد کا ہال ، وضو کی جگہ دیکھی اور مسجد میں موجود چند مقامی باشندوں سے مختصر بات کی – ایک بات جو ہم نے نوٹ کی کہ ہم بیروت ، طرابلس میں جہاں کہیں بھی گئے، چاہے وہ مسجد ہو ، دوکان ہو، کوئی گلی ہو، مظاہرہ ہو، وہاں پر دوران گفتگو لبنانی باشندوں کو جب یہ معلوم ہوتا کہ ہم پاکستانی ہیں ، تو یکدم ان کا رویہ انتہائی دوستانہ ہوجاتا تھا- پھر وہ ہم سے لمبی گفتگو کرنے کی کوشش کرتے تھے – بلکہ بعض دفعہ تو ان میں سے کچھ نے ہمیں کھانے کی دعوت دے ڈالی ، اور کچھ نے اپنے گھر مدعو کیا – خاص طور پر لبنانی مسلمان پاکستانی سیاحوں کی مدد کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے –
مسجد سے واپس آکر میں نے چند ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ پہاڑ ہاکنگ پر جانا چاہتے ہیں تو کوئی بھی ساتھی پہاڑ پر پیدل جانے کے لیے تیار نہ ہوا – اس طرح میں اکیلا ہی ہوٹل سے دور 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع درالصبا ہاکنگ پوائنٹ کے آغاز پر بذریعہ ٹیکسی پہنچ گیا – اس وقت گھڑی پر مقامی وقت شام کے پونے چار بج رہے تھے –
(سفر نامہ جاری ہے ، بقیہ قسط نمبر 2 میں )