ناروے میں بلدیاتی انتخابات 9 ستمبر 2019 کو مکمل ہورہے ہیں ، پچھلے 2 ماہ سے بھرپور انتخابی مہم 6 ستمبر 2019 کو ختم ہوگئی ، جس میں ملک کی 16 سیاسی پارٹیوں نے ملک کے ہر ضلع ، ہر یونین کونسل میں لوگوں کے بنیادی مسائل کو اجاگر کیا ، ساتھ ہی اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ووٹرز کے سامنے اپنا اپنا انتظامی ،سیاسی پروگرام رکھا ، اب ووٹرز پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع ، اپنی اپنی یونین کونسل میں کس پارٹی کو اکثریتی ووٹ سے نوازتے ہیں ، جس سے پھر یہ پارٹی یا مخلوط پارٹی اتحاد ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اگلے 4 سال اقتدار میں رہے گے، جن ایشوز کو بلدیاتی انتخابات میں نارویجین سیاسی پارٹیوں نے ایجنڈے پر کھا وہ ایشوز یہ ہیں –
نرسری سکولوں میں سہولیات، سیکنڈری سکولوں میں تعلیم معیار اور سہولیات –
مقامی لیول پر صحت کی سہولیات اور اولڈ ہوم –
موسمی تبدیلیاں ،ماحولیاتی آلودگی، گھریلو کوڑے کو ٹھکانے کا انتطام اور پبلک ٹرانسپورٹ –
کھیلوں کے میدان اور آرگنائز طریقے سے کھیلوں کا فروغ –
مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھانا-
مقامی سطح پر زراعت کی ترقی اور دوسرے ذرائع آمدنی کا فروغ –
شہروں سے ٹریفک کم کرنے کے لیے روڈ ٹیکس میں اضافہ –
مقامی انفراسٹرکچر ، پانی اور سیوریج کا نظام –
ملک میں نئے آنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی مختلف اضلاع میں آبادکاری ، مقامی زبان ، ثقافت کو سیکھنے کے لیے مختلف کورسز کا اجرا –
ناروے میں پائیدار جمہوری روایات کا نظام ہونے سے یہاں پر پارٹیاں سیاسی نظریات پر سیاست کرتی ہیں ، انہی سیاسی نظریات کی تشریح سے اقتدار میں آتی ہیں ، پورے ملک میں 2 بڑے سیاسی نظریے انتخابات کے وقت آپس میں مقابلے میں ہوتے ہیں ، ایک دائیں بازو کا نظریہ ہے جو سرمایہ دار لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے ، دوسرا نظریہ بائیں بازو کا جو مزدور
اور عام لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے ، جبکہ کچھ پارٹیاں سنٹر کے سیاسی نظریات کی حامی ہوتی ہیں ، پچلھے چند سالوں سے ٹیکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے زیادہ لوگ سنٹر سیاسی نظریے کے حامی نظر آتے ہیں ، سنٹر سیاسی نظر یے میں ووٹرز کے اضافے نے اب ناروے کے زیادہ تر اضلاع ، یونین کونسلوں میں اقتدار سنٹر سیاسی نظریات رکھنے والی پارٹیوں کے مرہون منت ہے ، کیونکہ جس طرف سنٹر نظریات کی پارٹیوں کا رحجان ہوگا وہی مخلوط اتحاد ملکی ضلعوں اور یونین کونسلوں کا اقتدار حاصل کر سکے گا –
پورے ناروے کی آبادی 55 لاکھ کے قریب ، جبکہ ووٹرز کی تعداد 42 لاکھ ہے ، 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں 16 پارٹیاں آپس میں مد مقابل ، 54 254 امیدوار سیاسی میدان میں اترے ہیں، پورے ملک میں 356 یونین کونسلیں ہیں –
ناروے کے ان بلدیاتی انتخابات میں ہر پارٹی میں پاکستانی نژاد تارکین وطن نمائندے بھی بھرپور طریقے سے حصہ لے رہے ہیں –
9 ستمبر 2019 کو انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد 5200 عوامی نمائندے ، ملکی حکومت کے نچلی سطح کے انتظامی ڈھانچے کے اقتدار کے مالک بنیں گے ، ان عوامی نمائندوں کے زیرسایہ پوری حکومتی مشینری کام کرے گی –
قارئین یہ ہے وہ سیکنڈی نیون رفاعی حکومتی ماڈل جس نے ملک کے ہر انسان کو بنیادی سہولیات مہیا کی ہوئی ، جس کی وجہ سے نارڈیک ممالک کا یہ حکومتی ماڈل پوری دنیا میں ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے ، جس فلاحی حکومتی ماڈل کو دیکھ کر دوسرے ممالک بھی اپنے ہاں اسے نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں –