ناروے میں بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ کے تمام مراحل ۹ ستمبر کو ختم ہورہے ہیں، یعنی ۹ ستمبر ووٹ ڈالنے کا آخری دن ہے۔ ناروے میں انتخابات قومی پارلمان کے ہوں یا مقامی حکومتوں کے ہوں، ووٹنگ کا سلسلہ چند ماہ پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے اس طرح بیان کیا جاسکتاہے، جونہی امیواروں کی فہرست حتمی ہوتی ہے، ووٹنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ناروے میں ووٹ ڈالنے کا نظام پاکستان کی طرح نہیں بلکہ ووٹنگ کی حتمی تاریخ سے پہلے ہی ووٹ ڈالنے کے لیے دفاتر، گلی، کوچوں اور دیگر مقامات پر پولنگ بوتھ بن جاتے ہیں اورصبح سے لے کر شام لوگوں کو جب وقت ملتا ہے، وہاں جاکر ووٹ ڈال لیتے ہیں۔
پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے لیے ایک ہی دن ہوتا ہے اور اس دن افراتفری مچی ہوتی ہے۔ دیگر انتظامات کے علاوہ سیکورٹی کے بھی سخت انتطامات کئے جاتے ہیں۔ کہیں کسی حادثے کا بھی خدشہ ہوتاہے۔ امیدواروں کے حامیوں کے درمیان لڑائی کے امکانات کے علاوہ گذشتہ کئی سالوں سے پولنگ اسٹیشنوں پر دہشت گردی کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔ غرضیکہ ہزاروں مسائل میں جھکڑا ہوا پاکستان پھر بھی کسی نہ کسی طرح پولنگ کا شاہد ہوتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد پاکستان کے انتخاباتی نظام پر تنقید نہیں بلکہ ایک مختصر سا تقابلی جائزہ ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے اپنے حالات ہیں اور اس ملک کے نظام کو سدھرنے میں بہت وقت اور طویل جدوجہد درکار ہیں۔ بہت سے مسائل اور بہت سی روکاٹیں ہیں۔ جن کو دور کرنے کے بعد ہی ملک جمہوری حوالے سے بہتر مقام تک پہنچ سکتا ہے۔
جہاں تک ناروے کے انتخابات کا تعلق ہے، پانچ ملین کی آبادی والے چھوٹے سے اس ملک میں ہرچار سال بعد بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور ہر چار سال بعد پارلمان انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ ان دونوں انتخابات کے لیے ووٹنگ کا اختتام ستمبر کے مہینے میں ہوتا ہے۔ ناروے میں پہلے بلدیاتی انتخابات انیسویں صدی کی دوسرے چھوتھائی میں ہوئے تھے، یعنی پاکستان بننے سے ایک سو دس سال پہلے ناروے میں مقامی جمہوری حکومتیں فعال ہوچکی تھیں۔
ناروے کے بلدیاتی انتخابات میں وہ شخص بھی ووٹ ڈال سکتا ہے جس کے پاس نارویجن شہریت نہیں لیکن اس کے پاس مستقل رہائش کا اجازت نامہ (تین سال سے زائد مدت سے رہائش پذیرہوناضروری ہے) ہونا ضروری ہے۔ اس اصول کے تحت اٹھارہ سال سے زائد عمر والا ہر فرد ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لوگ دوطرح سے ڈال سکتے ہیں، یعنی پارٹی کو ووٹ یا کسی امیدوار کو ذاتی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں بے شمار یونین کونسل اور سٹی کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسل یا ڈویژن کونسل ہیں۔ جنہیں مقامی زبان میں بی دل، بی ستیرے اور فلکے کہا جاتا ہے۔
ناروے کے دارالحکومت کی مقامی حکومت کو اوسلو سٹی کونسل یا اوسلو سٹی پارلیمنٹ کہاجاتا ہے۔ اس مقامی پارلیمنٹ کی عمارت کو ’’رود ہاؤس‘‘ کہتے ہیں۔ اس عمارت کو ۱۹۳۱ اور ۱۹۵۰ کے درمیان بنایا گیا تھا۔ اس عمارت کو بنانے میں زیادہ وقت دوسری جنگ کی وجہ سے لگا۔ یہ عمارت اوسلو شہر کے وسط میں مرکزی پارلیمنٹ ’’سٹورٹنگ‘‘ کی عمارت سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع ہے۔
اوسلو مونسپلٹی یا اوسلو کمیون میں ستر کی دہائی سے اب تک پاکستانیوں کی نمائندگی ضرور رہی ہے۔ اس سٹی کونسل میں مختلف جماعتوں کی طرف سے نمائندے کرنے والے پاکسستانیوں میں شہبازطارق، چوہدری خالد محمود، اختر چوہدری، اطہرعلی، سید طارق شاہ، شیخ عامر جاوید، مدثرکپور اور نوید خاور قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے کچھ مرکزی پارلمان میں بھی اپنی اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
اس بار دیگر پاکستانی نژاد امیدواروں کے علاوہ 49 ویں نمبر پر لیبرپارٹی کے امیدوار ڈاکٹر راجہ مبشر بنارس ہیں جو دوسری مرتبہ میدان میں آئے ہیں۔ راجہ مبشر بنارس گذشتہ چار سالوں سے اوسلو سٹی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کے علاوہ وہ اوسلو کے گرورود ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ انھوں نے سماجی حوالے سے لوگوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ راجہ مبشر کے دوسرے بھائی ڈاکٹر شہزاد ضیاء بنارس بھی گرورود ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن ہیں۔ سیاست کے ساتھ ساتھ دونوں بھائی میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں۔ راجہ مبشر بنارس کا خاصہ یہ ہے کہ وہ دونوں ثقافتوں سے پوری طرح آشنا ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ نارویجن پاکستانیوں اور دیگر پس منظر رکھنے والی کمیونٹیز کے کیا مسائل ہیں اور ناروے کے نظام میں ان مسائل کا حل کیا ہے۔ راجہ مبشر بنارس سے جب بھی ملاقات ہوئی، راقم نے مشاہدہ کیا کہ انتہائی کسر نفسی اور انکساری سے کام لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے، میری اس رائے سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو لیکن یہ بات راقم نے خود مشاہدہ کی ہے۔ اگرچہ راجہ مبشر سے آخری ملاقات کئی ماہ پہلے ہوئی تھی لیکن راقم نے ان کی انتخابی مہم کو سوشل میڈیا پر بغور مطالعہ کیا ہے۔ راجہ مبشر اپنی انتخابی مہم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں دوبارہ منتخب ہوں تو آپ آئبائیدر پارٹی (لیبرپارٹی) کو ووٹ دیں اور اوسلو سٹی کونسل کی فہرست میں 49 ویں نمبر پر کراس کا نشان لگائیں۔ بقول انکے، لیبرپارٹی چاہتی ہے کہ لوگوں کو بہتر مواقع ملیں، صحت و تعلیم کی سہولیات بہتر میسر ہوں۔ ڈاکٹر مبشر کے ایک قریبی دوست ہیومن سروس ناروے کے سینئرعہدیدار چوہدری غلام سرور کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مبشر بنارس بڑے با ہمت انسان ہیں اور انھوں نے اپنے ذاتی اخلاق و کردار اپنا وسیع حلقہ احباب بنایا ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ کامیابی ایک بار پھر ان کے قدم چومے گی۔
راقم کی اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ راجہ مبشربنارس اوسلو سٹی کونسل کے لیے ایک بار پھر منتخب ہوکر کمیونٹی کی نمائندگی کریں۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے ان کا ساتھ دینا ہوگا۔