(14 جولائی تا 24 جولائی )
(تحریر ، محمد طارق )
امسال گرمیوں کی چھٹیاں ہونے سے پہلے گھر میں بات چلی کے اس سال کس ملک یا کس علاقے میں گرمیوں کی چھٹیاں گذاری جائیں ، بچوں ، بیگم کی بحث کے بعد قرہ اسپین کے شہر مالاگا کا نکلا ، مالاگا جو اسپین کے صوبے اندلس میں واقع ہے ، اندلس پہنچنے سے پہلے سفر کے لیے کافی تیاری کرنا پڑی، کون سی فلائٹ لینی ہے ، مالاگا میں کہاں رہنا ہے ، کون کون سی تاریخی مقامات دیکھنے ہیں ، کتنے دن صرف آرام کرنا ہے وغیرہ ، یورپ میں گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے سفر کرنا خاصا مہنگا پڑ جاتا ہے ، ان سارے معاملات کو دیکھتے ہوئے ، اپنے بجٹ کے حساب سے فلائٹ لی اور مالاگا سے 80 کلومیٹر دور چھوٹے شہر ایس پوتانا میں رہائش کا بندوبست کیا –
مالاگا ائیرپورٹ رات 12 بجے پہنچے، ائیرپورٹ سے ہی گاڑی لی ، جو انٹرنیٹ کے ذریعے پہلے ہی بک کروا لی تھی، چھٹیوں میں کار رینٹ پر لینا انتہائی مہنگا ہے ، انٹرنیٹ پر گاڑی کی قمیت ایک ہوتی ہے ، وہ انتہائی سستی لگتی ہے ، لیکن جب سارا کنٹریکٹ سائن ہوجاتا ہے تو اس کے بعد رینٹ اے کار کی قمیت 3 گنا زائد پڑ جاتی ہے ، کیونکہ رینٹ اے کار کمپنیوں نے اپنی گاڑیوں کی رسک انشورنس پرائس بہت زیادہ رکھی ہوتی ہے ، گاڑی کرائے پر لیتے وقت کوئی بھی گاہک فل انشورنس کے بغیر گاڑی نہیں لیتا ، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا ہو تو گاڑی واپس لیتے وقت رینٹ اے کار کمپنیاں کوئی نہ کوئی گاڑی میں نقص نکال کر گاہک سے 6 گناہ رقم ہتھا لیتے ہیں –
مالاگا شہر سے ایس تے پونا جانے کے 2 راستے تھے ، ایک راستہ جوکہ موٹر وے ہے ، جس پر آپ جلدی ایس تے پونا پہنچ سکتے ہیں ، لیکن اس راستے پر آپ کو روڈ ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے ، جبکہ دوسرے راستہ سنگل سڑک ہے ، لیکن سمندر کے کنارے پر ہے ، نظارہ بھی اچھا، رات کو رش نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے اس راستے یعنی سڑک اے – 7 سے ایس تے پونا کی طرف سفر شروع کیا، اس سڑک پر سفر کرنے سے آپ کو روڈ ٹول ٹیکس نہیں دینا پڑتا ہے –
اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر کمروں کو 2 فیملیز کے افراد کے درمیان تقسیم کیا اور اگلے دن کا پروگرام طہ کیا، بچوں اور بڑوں کے خیال میں سفر کی وجہ سے تھکاوٹ بہت ہے ، لحاظ کل 15 جولائی 2019 کو مکمل ریسٹ ہونا چاہیے ، پھر اگلے دن ایسا ہی ہوا ، صبح دیر سے اٹھنے کے بعد صرف لنچ کیا اور سب لوگ بیچ پر نکل گئے ، بچوں اور مردوں نے سوئمنگ کی ، جب کہ خواتین نے صرف دھوپ لینے پر اکتفا کیا ، شام کا کھانا اپارٹمنٹ میں ہی بنایا اور کھایا گیا –
قرطبہ میں –
دوسرے دن کے پروگرام کا رات کو ہی فیصلہ کرلیا گیا تھا ، کہ یہاں سے 230 کلومیٹر دور اندلس یعنی اسپین کے مشہور تاریخی شہر قرطبہ جانا ہے ، اس لیے اس صبح سب لوگ تیار ہوگئے اور ہم نے قرطبہ شہر کی طر ف صبح 9 بجے سفر کا آغاز کیا ، ایس تے پونا سے موٹر وے 1ے 7 لی اور سیدھے مالاگا کی طرف چل پڑے ، مالاگا سے موٹر وے اے 45 لی جو غرناطہ اور قرطبہ کی طرف جاتی ہے ، راستے میں ایک ٹرن پر اے 44 موٹر وے ، موٹر وے اے 45 سے جدا ہوتی ہے ، جو غرناطہ کو جاتی ہے ، جبکہ ہم موٹر وے اے 45 پر ہی رہے ،جو سیدھی قرطبہ جاتی ہے ، ہم جیسے ہی موٹر وے اے 44 سے علیحدہ ہوئے تو موٹر وے اے 45 پر قرطبہ 100 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اس پورے 100 کلومیٹر کے فاصلے میں موٹر وے اے 45 کے دونوں اطراف ناہموار زمین پر بڑے بڑے کھلے زیتون کے باغات تھے ، مکانات بہت ہی کم ، کبھی کبھی 10، 20 کلومیٹر کے بعد ایک آدھ مکان نظر آتا تھا ،وہ لگ ایسا رہا تھا کہ ان باغات کے مالکوں کی زرعی مشینوں کی جگہ ہوگی ، زمین کی سطح بالکل پاکستان کے اضلاع ، روالپنڈی، چکوال، جہلم ، اٹک اور ایبیٹ آباد سے ملتی جلتی تھی ، فرق صرف یہ تھا کہ ہمارے اضلاع میں ایسی زمینیں خالی پڑی ہوئی ہیں ، جہاں سڑکوں کے کنارے عمارت در عمارت تعمیر ہو رہی ہے ، جبکہ اسپین میں مقامی زمینداروں نے مقامی ضلعی حکومت سے مل کر ناہموار زمین کو قابل کاشت بنایا ،ایسے پھل کو اس جگہ کاشت کیا جس پھل کو پانی کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی اور جس کی عالمی منڈی میں مانگ بہت زیادہ ہے اور قمیت بھی اچھی ملتی ہے ، ساتھ ہی مقامی لوگوں کو روزگار بھی مل جاتا ہے –
اس فاصلے کو ہم نے ایک گھنٹے میں طہ کیا اور دن کے 1130 بجے قرطبہ شہر پہنچ گئے ، ہم نے قرطبہ مسجد کے ساتھ ، شہر کے وسط میں گاڑیاں ایک پارکنگ ہاوس میں پارک کر دی ، اب سفر میں آئے ہوئے بچوں یعنی نوجوانوں کو بھوک لگ گئ اور وہ لنچ کا اسرار کرنے لگے ، خواتین نے گاڑیوں سے لنچ نکالا ، جبکہ نوجوانوں نے قرطبہ کے مشہور دریا الکبیر (ہسپانوی: Guadalquivir ) کے کنارے کے 2 بنچ پر قبضہ جما لیا ، تاکہ ہم 10 لوگ گرمی میں درختوں کے سائے تلے آرام سے لنچ کر سکیں –
لنچ کے دوران میں نے چند راہگیروں سے اس دریا کے بارے میں معلومات لی ، انہوں نے بتایا کہ یہ دریا اسپین کے پہلے 5 بڑوں دریاؤں میں شمار ہوتا ہے ، اس دریا کے کنارے بادشاہوں ،ان کے خاندان کے افراد چہل قدمی کرتے تھے ، جبکہ دانشور ، علمی لوگ یہاں بیٹھ کر نت نئی سوچ ، ایجادات ، فلسفے ، نئے علوم پر لکھتے، تقاریر کرتے تھے ، ان دانشوروں کے اس علم کو اس وقت کے حکمران اکٹھے جمع کرکے شائع کراتے ،اور علمی مدارس میں ان نئے علوم کو تعلیمی نصاب کا حصہ بناتے تھے –
لنچ کرنے کے بعد ہم سب قرطبہ مسجد (جسے اب کھتیڈرال بھی کہتے ہیں ) کہ مین گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ مسجد کے اندر جانے کے لیے ٹکٹ آفس کے سامنے لمبی قطار لگی ہوئی ہے ، ہم بھی اس قطار میں کھڑے ہوگئے ، ٹکٹ آفس کے لوگوں کے جلد از جلد ٹکٹ شائع کرنے کی وجہ سے ہمیں 15 منٹ میں ہی مسجد کے ٹکٹ مل گئے ، ۔مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی ہم نے وہ جگہ ڈھونڈنا شروع کی جہاں پر مہراب تھا ، کچھ دیر بعد بچوں نے بتایا کہ مہراب آگے کی طرف سامنے والی دیوار میں ہے ، مہراب کے اوپر بڑے خوبصورت طریقے سے قرآن کی چند آیات لکھی ہوئی تھی ، لیکن سیاح کو مہراب میں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی ،یہ شاندار مسجد صرف 3 سال کی قلیل مدت میں تیار ہوئی ، اِس کے بعد 10ویں صدی تک ہر آنے والے مسلم حکمران نے مسجد کی تزئین و آرائش اور توسیع میں اپنا حصہ ڈالا۔اسس مسجد چوڑائی150میٹراورلمبائی220
میٹر کے قریب ہے ، مسجد کی چھت 30 فٹ کی بلندی پر تعمیر کی گئی ہے،جس سے ہوا اور روشنی کا بہتر نکاس ممکن ہوا۔ چھت کو سہارا دینے کے لیے کئی ستون تعمیر کیے گئے-
مسجد کو دیکھنے کے بعد ہم نے مسجد کے ارد گرد بازار میں راونڈ لگایا ، بازار کی گلیاں انتہائی تنگ تھی ، لیکن مقامی میونسپل کمیٹی کی اچھی ویسیٹ منجیمٹ کی وجہ سے صفائی کا انتظام بہت ہی اعلی ، کہیں بھی ہمیں باہر کوڑا ،کاغذ، پلاسٹک بکھرے ہوئے نہیں ملے ، بازار کی گلیوں میں جگہ جگہ کوڑے دان کے ڈرم لگے ہوئے تھے ، چلتے چلتے ایک مقامی گائیڈ سے ملاقات ہوئی ، اس نے بتایا کہ اب اس شہر میں پرانی مساجد یا مسلمانوں کی تاریخ عمارات ، ورثہ کو مسلمانوں کا ورثہ ہونے کی وجہ سے محفوظ نہیں کیا گیا، سوائے چند بڑی مشہور عمارات اور تاریخی واقعات کی جگہوں کو، گائیڈ کے مطابق اب اس شہر میں 3، 4 مساجد ہیں ، یہاں پر مسلمانوں کی تعداد 4000 کے لگ بھگ ہے ، جس میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان ، افغانستان اور مراکش سے ہے ، قرطبہ شہر میں چھوٹے ریسٹورنٹس، ٹیک اویز کے زیادہ تر مالک پاکستانی ہیں ، مراکشی گائیڈ پاکستانی تارکین وطن سے کافی متاثر تھا ،وہ بتا رہا تھا کہ پاکستانی لوگ بہت محنتی اور دل لگی سے کام کرتے ہیں ، کہ جب وہ اس شہر میں پہنچتے ہیں تو پہلے پہل چھوٹے موٹے کام دوکانوں ، ریستورانوں پر کرتے ہیں ، 2 ، 3 سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پاکستانی شہر کی کسی گلی میں پرچون کی دوکان یا ٹیک اوے کا مالک بن کر چلا رہا ہوتا ہے ، ایسی لگن اور محنت سے عربی یا دوسرے افریقی لوگ کام نہیں کرتے –
قرطبہ مسجد کو دیکھنے اور اس کے اردگرد کا راونڈ لگانے کے بعد ہم نے واپس ایس تے پونا کی راہ لی، دوران سفر بہت ہی پیارے بھائی ، دوست عارف حسین وڑائچ کا فون آگیا ، جو کہ بارسلونا میں مقیم ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اندلس میں خوش آمدید کہتے ہیں ، آپ واپس قرطبہ چلیں ، یہاں ہمارے ہاں رات ٹھہریں ، مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے ان کی مہمان نوازی سے ہم لطف اندوز نہ ہوسکے ،رات 12 بجے کے قریب واپس ہم اپنی رہائش گاہ پہنچے ، رہائش گاہ پہنچنے سے پہلے اندلس کے مشہور ہالیڈے پاٹ ماربیا میں رات کا کھانا کھایا اور سمندر کے کنارے رات کو ہی مٹر گشت کی –
بہتے پانی میں ہاکنگ ،
دریائے سیار –
اگلے دن کا پروگرام مالگا شہر سے باہر 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سی لار دریا کی پیدل سیر کا تھا، یہ دریا شہر نیریا کے پہاڑوں کے درمیان میں بہتا ہے ، پہاڑ اونچے اونچے ٹیلوں پر مشتمل ہے ،ان ٹیلوں کے پہاڑی سلسلے کے درمیان بہت ساری آبشاریں ہیں ، ان آبشاروں کے تازہ پانی سے نہانے کے لیے سیاح نیریا دریا سے گذرتے ہوئے پہاڑ کی ہاکنگ کرنے آتے ہیں ، شہر کے اس پہاڑ کی ہاکنگ کی خاص بات یہ ہے کہ پہاڑ کی ہاکنگ کرتے وقت آپ کو دریا کے بہتے پانی میں ہر وقت پیدل چلتے رہنا ہوتا ہے ، بہتے پانی میں پتھروں پر بڑے احتیاط سے چلنا پڑتا ہے ، کچھ پتھر نوکیلے اور پسلنے والے تھے ، راستے میں ہمیں کافی سیاح ملے ، ہر سیاح اس ٹور کی تعریف کررہا تھا ، سب سے اہم بات اس ہاکنگ کی یہ تھی کہ ہر عمر کے لوگ اس ہاکنگ ٹور پر اپنی رفتار سے چل سکتے ہیں ، 2 گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم صرف دریا کا 70 % فاصلہ عبور کر سکے تھے ، پہاڑ کے درمیان ایک جھیل کے پاس پہنچ کر ہم واپس ہوئے،شام کا وقت ہونے کی وجہ سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر نہ پہنچ پائے ، قارئین سے گزارش ہے کہ جب کبھی آپ قرطبہ ،مالگا آئیں تو نیریا شہر میں اس دریا کا ضرور وزٹ کریں ، آپ دریا کے بہتے پانی اور پہاڑ میں ہاکنگ کرتے ہوئے بہت لطف اندوز ہونگے –
نیشنل پارک سیارہ برمیا –
اس کے اگلے دن ایس تے پونا کے مقامی نیشنل پارک سیارہ برمیا کی سیر اور اس کے پہاڑوں کی ہاکنگ کا طہ ہوا ، سیارہ برمیا پہاڑی سلسلے میں نیشنل پارک کی چوٹی 1500 میٹر سطح سمندر سے اوپر واقع ہے ، اگلے دن سب بچے ، نوجوان اور بڑے ایک گھنٹہ لیٹ تیار ہوئے ، لیٹ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار تیز کرنا پڑ گئ تاکہ جلد از جلد پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا جائے اور اندھیرا ہونے سے پہلے 1500 میٹر کی بلندی کو سر کیا جا سکے ، ایس تے پونا شہر کے وسط سے گذرتے ہوئے ہم نے سڑک نمبر ایم اے 8301 لی جو نیشنل پارک کو جاتی ہے ، ایس تے پونا شہر سے پہاڑی کی چوٹی تک جانے کے لیے 16 کلومیٹر کا فاصلہ ہے ، سڑک پکی ہے ، لیکن سڑک میں بہت ہی موڑ، یو ٹرن ہیں ، سڑک پہاڑوں کے سلسلے کے کنارے پر بنی ہوئی ، پرخطر راستہ ، لیکن انتہائی دلکش اور خوبصورت نظارہ ، پہاڑ میں ایک طرف گھنا جنگل ، جبکہ دوسری طرف اونچی اونچی کھائیاں ، ان کھائیوں کے بیچ چیدہ چیدہ سفید ، گلابی رنگ کے مکانات بنے ہوئے ، جبکہ بالکل نیچے سمندر ، تقریبا 50 منٹ کی ڈرایئو کے بعد آگے گاڑی نہ لے کر جانے کا سائن بورڈ لگا ہوا تھا اور کار پارکنگ بنی ہوئی تھی ، ہم نے وہاں گاڑیاں پارک کی اور پہاڑ میں پیدل چلنے کے بنے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے 400 میٹر کے فاصلے پر واقع پہلے وئیو پوائنٹ پر پہنچ گئے ، جبکہ پہاڑ کی چوٹی آگے اور 5 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی ، گاڑی میں اوپر آتے وقت ہم نے کافی لوگ پہاڑ کے درمیان میں ،یا سڑک کے کنارے پیدل اوپر اور نیچے آتے ہوئے دیکھے ، یہ وہ لوگ تھے جو اپنے اپنے اسٹمینے، اپنی اپنی صحت ، اپنی اپنی ہاکنگ ٹریننگ کے مطابق اپنی گاڑیاں پہاڑ کی سڑک کے اردگرد پارک کر کے اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے ، ان سب لوگوں کے سانس ، پسینے دیکھ کر محسوس ہورہاتھا کہ یہ کتنا مشکل ہاکنگ ٹریک ہے ، وئیو پوائنٹ پر پہنچتے ہی بچوں ، بڑوں نے اپنے اپنے انداز سے تصویریں اور فلم بنائی ، اس وئیو پوائنٹ سے براعظم افریقہ, بحرہ اوقیانوس اور بحرہ روم سامنے نظر آتے ہیں ، ویئو پوائنٹ پر چند منٹس رکنے کے بعد ہم 3 کلومیٹر مزید سیارہ برمیا نیشنل پارک کے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر واپسی کی راہ لی ، اس پورے سفر میں جو اہم چیز نوٹ کی ایس تے پونا لوکل گورنمنٹ نے پورے جنگل کو صاف رکھا ہوا تھا ، سڑک کا معیار بہت اعلی تھا ،پہاڑ کی پگڈنڈی پر سڑک ہونے کے باوجود سڑک میں کسی بھی قسم کا کوئی گڑھا نظر نہیں آیا-
(بقیہ سفر ، جاری دوسری قسط میں )