(تحریر، محمد طارق )
تحریک انصاف، مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ،اور کئی دوسری سیاسی جماعتیں جن کی نمائندگی پاکستان کی قومی ، صوبائی اسمبلیوں میں ہے –
ان سب سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے بیانات سنئے –
ان کا سیاسی بیانیہ دیکھے –
ان کا انٹراپارٹی نظام دیکھے۔
کہ یہ سیاسی پارٹیاں کہتی کیا ہیں اور کرتی کیا ہیں،
مثال کے طور پر سب پارٹیوں کے سیاسی لیڈروں کو پاکستان کے غریب عوام کا غم کھائے جارہا ہے ، سب غریب عوام کی زندگیاں تبدیل کرنے کی دعوے دار ہیں ، لیکن خود یہی سیاسی پارٹیاں اپنے غریب ووٹر ، غریب کارکن کو اپنی پارٹیوں کے اندر جگہ نہیں دیتی ، نہ کسی بھی سطح پر اپنی پارٹیوں کے اندر ایسا انتظامی نظام رائج کرتی ہیں کہ عام ، غریب سیاسی کارکن اپنی پارٹی کے اندر محنت کر کے ، سیاسی جدوجہد سے پارٹی کا صوبائی سطح یا قومی سطح کا لیڈر بن سکے ، جیسے یورپ اور امریکہ کی سیاسی پارٹیوں کے اندر ہوتا ہے –
ان سیاسی پارٹیوں کی منافقت کو دیکھنا ہو تو ذرا ان کے قومی ، صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی دولت کے انبار دیکھو،
وزیراعظم عمران صاحب نے غریبوں کے لیے احساس پروگرام شروع کیا –
پیپلزپارٹی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا-
مسلم لیگ ن نے کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں کے لیے پیلی ٹیکسی اور پیلے ٹریکٹروں کا پروگرام شروع کیا –
مزے کی بات یہ سب پروگرام شروع کرانے والوں ، پروگرام کی پالیسی ترتیب دینے والوں میں پارٹیوں کا ایک بھی غریب یا عام سیاسی کارکن شامل نہیں –
وجہ کیا تھی کے انہی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر جو ہر تقریر ، ہر پریس کانفرنس میں غریب کی غربت کا رونا روتے ہیں ، ان کی غربت ختم کرنے کے دعوے دار ہوتے ہیں ،
لیکن
جب الیکشن کا وقت ہوتا ہے تو یہی سیاسی پارٹیاں اپنے کسی غریب ، یا عام پارٹی کارکن کو قومی ، صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیتی ، نہ ہی پارٹیوں کے اندر کوئی ایسا منصفانہ انٹراپارٹی نظام موجود ہوتا ہے ، جس سے عام پارٹی کارکن فائدہ لے سکے ، بلکہ اکثر اوقات حالات یہاں تک ہوتے ہیں کہ کسی حلقے میں ایک حقیقی عام ورکر موجود بھی ہو ، تو اس کو یہ سیاسی پارٹیاں ٹکٹ نہیں دیتی ، کیونکہ اس غریب کارکن کے پاس پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے رقم نہیں ہوتی ، اس صورتحال کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی پارٹیاں اور لیڈر اس حلقے میں اپنے سیاسی مخالف یعنی لوٹے کو بھی ٹکٹ دینے سے نہیں کتراتی ، وجہ کیا ہوتی ہے کہ اس سیاسی لوٹے کے پاس قومی ، صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لینے کی رقم ہوتی ہے اور ساتھ ہی وہ اسی دولت مند سیاسی اسٹیس کو کلاس کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے –
اوپر دی گئے دلائل کو کوئی قاری چیک کرنا چاہتا ہو تو وہ پاکستان کی موجودہ صوبائی ،قومی اسمبلی ممبران کی آمدن اور دولت کو دیکھیں کہ کتنے پارلیمان کے ممبران ہیں جن کی سالانہ آمدن اب یا اسمبلیوں کا ٹکٹ لیتے وقت کتنی تھی ، یا کتنے پارلیمان کے ممبران ہیں جن کی آمدن سالانہ 10 لاکھ روپے سے کم ہے –
کہنے کا مطلب ہے جب تک پارٹیوں کا عام سیاسی کارکن ، سیاسی پارٹیوں کے اندر ، قومی ، صوبائی اسمبلیوں کے اندر اپنی نمائندگی حاصل نہیں کرتا ، وہ خود پارلیمان اور سیاسی پارٹیوں کے اندر فیصلہ سازی میں شریک نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی حالت نہیں بدلے گی –