تحریر: سید سبطین شاہ
گذشتہ دنوں اپنے سفر ناروے کے دوران راقم کو ایک عید ملن پارٹی میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ یہ پروقار تقریب عالم پور گوندلاں ویلفیئرسوسائٹی ناروے نے منعقد کی۔ تقریب کی اردو میں محمد مظفرگوندل اور نارویجن زبان میں ادیب و شاعر آفتاب وڑائچ نے نقابت کی۔ پروفیسر نصیراحمد نوری جو بزم نقشبند اوسلو کے امام جماعت بھی ہیں، نے تلاوت کی سعادت حاصل کی اور محمد جاوید نے ہدیہ نعت پیش کیا۔ عالم پور گوندلاں سوسائٹی ناروے جو ۱۹۷۳ میں قائم ہوئی، کا نام کھاریاں کے گاؤں عالم پور گوندلاں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ تقریب کے دوران پاکستان میں متعارف ہونے والی ایک نئی کھیل ’’فلوربال‘‘ کے بارے میں پاکستان فلور بال ایسوسی ایشن کے عاصم کیانی نے بتایاکہ وہ پہلی بار پاکستان میں یہ کھیل متعارف کروا رہے ہیں۔
اس تقریب میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس دوران ایک سو تین سالہ خاتون فضل بی بی کو ان کی دینی خدمات پر پھول پیش کئے گئے۔ اس معمر خاتون نے عالم پورگوندلاں کے بچوں کو کئی عشروں تک قرآن و اسلام کی تعلیم دی۔ ان کے ساتھ ایک دوسری خاتون بھی موجود تھیں جومرحوم محمد اشرف المعروف سناکے نوشک کی بیوہ ہیں۔ محمد اشرف وہ پہلے شخص تھے جو عالم پورگوندلاں گاؤں سے ۱۹۶۸ میں ناروے آئے تھے۔
اس تقریب کا ہرجزء اہم تھا لیکن ان میں سب سے زیادہ راقم کی دلچسپی کی چیز ایک عشروں پرانا اشتہار تھا جو سلائیڈ کے ذریعے سکرین پر دکھائی دیاگیا۔ یہ چاردہائیوں قدیم سیاسی۔معاشی اشتہار تھا۔ یہ اشتہار ایک پارٹی کا اشتہار تھا جس کا نام آل پاکستان پکھ کڈھ پارٹی (آل پاکستان بھوک مکاؤ پارٹی) تھا۔ اس اشتہار کے فوراً بعد ایک شخص کی بلیک اینڈ وائیٹ تصویر بھی دکھائی دی۔ اس شخصیت کا نام چوہدری نیک عالم گوندل تھا۔ بھوک مٹاؤ پارٹی کے اس اشتہار میں سرفہرست پنجابی زبان میں ایک غور طلب شعر بھی درج تھا۔ ’’عالم گھرگھر دیندا پھرے دہائی ۔ آؤ یارو رل مل کے بکھ نال کرئیے لڑائی۔‘‘ یعنی نیک عالم گھر گھر اعلان کرتا پھررہا ہے کہ آؤ دوستوں مل کر بھوک کے ساتھ نبرد آزما ہوں۔ واقعاً بھوک سے جنگ ایک بڑا اہم نظریہ ہے۔ یہ سوچ ستر کی دہائی میں نیک عالم میں موجود تھی جنہوں نے اپنے علاقے کی خوشحالی کے لیے نہ صرف لوگ باہر بھیجے بلکہ ملک کے اندر بھی غریب کے خاتمے کے لیے ایک پارٹی ( آل پاکستان بھوک مٹاؤ پارٹی) بنائی۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بھوک اور افلاس دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حکمرانوں کی ناقص معاشی و اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ جس سے دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو غربت و افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
چوہدری شریف گوندل جو ایک تجربہ کار لکھاری بھی ہیں اور نیک عالم کے قریبی عزیز بھی ہیں، کہتے ہیں کہ نیک عالم چاہتے تھے، ان کے علاقے کے لوگ باہر جائیں اور وہاں سے پیسہ کما کر واپس پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے سمال انڈسٹریز کا ایک منصوبہ بھی بنایا ہوا تھا۔ ستر کی دہائی کے بعد مختلف حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے ملک میں اس طرح سرمایہ کاری نہیں کی، جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ لوگوں نے بغیر کسی سرکاری میکانیزم کے پاکستان میں اپنے محل نما مکانات ہی بنالیے ہیں۔ اب وہ اکثر باہر رہتے ہیں اور ان کے گاؤں میں یہ مکانات خالی ہیں۔ شریف گوندل کہتے ہیں کہ اب بھی ایسا ہوسکتا ہےکہ اگر پاکستان کے ہر سفارتخانے میں سرمایہ کاری ڈیسک بنایا جائے اور لوگوں کو ان کے سرمایہ کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جائے تو پھر اوورسیز پاکستانی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔
شریف گوندل کے بقول، نیک عالم مرحوم پاکستان میں سمال انڈسٹریز کے ذریعے ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ لوگ دن کو اپنی کھیتی باڑی اور دیگر کام کاج کریں اور شام کو گھروں میں بیٹھ کر سمال انڈسٹری کے لیے میٹریل بنائیں۔
راقم نے ۲۰۰۵ء میں پہلی دفعہ نیک عالم کے ایک قریبی عزیز مرحوم چوہدری ریاض گوندل ( جو نیک عالم معاشی خوشحالی کے نظریے کے بھی پر زور حامی تھے) کی دعوت پر ناروے میں قدم رکھا تو اس وقت پہلی بار لوگوں سے سنا کہ نیک عالم نے زیادہ تر لوگوں کو ناروے بھیجا ہے۔ اس وقت نیک عالم کے نظریے کے بارے میں زیادہ تفصیلات پتہ نہیں تھیں کہ وہ نہ صرف ایک نیک اور ہمدرد انسان تھے بلکہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ و دور اندیش بھی تھے۔ انھوں نے انسانی خدمت کے جذبے کے تحت اعلیٰ گریڈ کی سرکاری ملازمت چھوڑی اور پھر خدمت خلق کاکام شروع کردیا۔ اس زمانے پاسپورٹ بننا بھی مشکل تھا لیکن انھوں نے لوگوں کے پاسپورٹ بھی بنوائے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر بھی بھیجا۔ جس کسی کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو وہ اس سے کہتے تھے کہ چلیں باہر جاکر کما کر پیسے دے دینا۔
کچھ عرصہ قبل راقم کی پاکستان یونین ناروے کے چوہدری قمراقبال کی موجودگی میں یونین کے سیکرٹری اطلاعات ملک پرویز مہر جو ستر کی دہائی سے ناروے میں سماجی طور پر فعال ہیں، سے نیک عالم گوندل کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی، تو ملک پرویز کہنے لگے، نیک عالم ایک درویش صفت انسان تھے۔ کئی لوگوں نے باہر جاکر نیک عالم کو پیسے بھی نہیں دیئے لیکن نیک عالم نے کبھی گلہ نہیں کیا۔ یادرہے کہ پاکستان یونین ناروے نے مرحوم نیک عالم گوندل کی گرانقدر سماجی خدمات پر انہیں ۲۰۰۹ء میں اوسلو میں یونین کی طرف سے یوم آزادی پاکستان کی ایک بڑی تقریب کے دوران ایک خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نارویجن پاکستانیوں کی اکثریت کی خوشحالی میں نیک عالم گوندل کا بڑا کردار ہے۔ کھاریاں کی ساٹھ ستر فیصد آبادی ناروے سمیت یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہے اور یہ اس شخصیت کے مرہون منت ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں اس علاقے کے لوگوں کو باہر بھجوایا۔ بقول ملک پرویز، نیک عالم نے پاکستانیوں کے لیے یورپ کا راستہ کھولا اور انہیں اس لیے پاکستانیوں کا یورپ کے لیے کولمبس بھی کہا جاسکتا ہے۔
اگرچہ نیک عالم جیسے لوگوں کی بدولت بہت سے لوگ یورپ جیسے خوشخال خطوں میں آکر آباد ہوئے لیکن افسوس ہے کہ پاکستان میں کوئی سرکاری میکانیزم نہ ہونے کی وجہ سے ان اوورسیز پاکستانیوں کے تجربات سے صحیح استفادہ نہیں ہوسکا۔ حالات تو اس نہج پر ہیں کہ جب یہ پاکستانی پاکستان جاتے ہیں تو انہیں بے شمار قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا جس سے یہ بعض اوقات مایوسی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ بہرحال نیک عالم جیسے انسان اپنے حصے کا کام کرکے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اب ان کے پیچھے رہ جانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی خوشحالی کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرکے اپنی مٹی کا قرض اتارنے کی کوشش کریں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک عالم گوندل کی روح کو شاد رکھے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ امین