پی پی پی ناروے کے رہنماء میاں اسلام پاکستانی صحافی و محقق سید سبطین شاہ سے گفتگو کررہے ہیں
اوسلو (خصوصی رپورٹ)۔
انتہاپسندی نے نہ صرف پاکستان کو اندرونی طور پر سخت نقصان پہنچایا ہے بلکہ ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں بھی اس ملک کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئررہنماء میاں محمد اسلام نے پاکستانی صحافی اور محقق سید سبطین شاہ سے ملاقات کے دوران کہی۔
واضح رہے کہ سید سبطین شاہ گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں انتہائی پسندی کے بارے میں ایک مفصل تحقیقی مقالے پر کام کررہے ہیں۔
میاں اسلام نے کہاکہ انتہاپسندی اور مذہبی منافرت نے ایک طرف پاکستان کے لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہے اور دوسری طرف بیرونی دنیا میں پاکستان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
انھوں نے بطور مثال بتایاکہ خاص طور پر توہین مذہب کیس میں طویل مدت قید کاٹنے والی عیسائی خاتون آسیہ مسیح کے مقدمے کی وجہ سے پاکستان کی بیرون ملک بہت بدنامی ہوئی ہے۔
میاں اسلام نے کہاکہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن ہم نے آسیہ مسیح کیس میں دیکھا کہ مٹھی بھر عناصر نے پوری ریاست کو یرغمال بنائے رکھا اور اس کیس میں دو اہم سیاسی شخصیات کی جانیں بھی گئیں۔
میاں اسلام جو گذشتہ ماہ پاکستان سے واپس ناروے آئے ہیں، کے بقول، جس دن آسیہ مسیح پاکستان سے کینیڈا کے لیے روانہ ہوئیں، اسی دن وہ پاکستان سے ناروے واپس آئے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ آسیہ مسیح کی بیرون ملک روانگی اور کینیڈا میں پناہ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کی ریاست اپنے باشندوں کو تحفظ نہیں دے سکتی۔ یہ خاتون بری ہوجانے کے باوجود ملک میں نہ رہ سکیں۔ زمین ان پر اتنی تنگ کردی گئی کہ انہیں پاکستان سے دوسرے ملک جانا پڑا۔
میاں اسلام جو ذوالفقار بھٹو کے زمانے سے پیپلزپارٹی کے کارکن ہیں، نے کہاکہ جنرل ضیاء کی پیدا کردہ جنونیت اور انتہاپسندی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی بھی شخص توہین مذہب کا الزام لگا کر کسی کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ عدالتیں بھی پولیس چالان اور تفتیس کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ اس قانون کا ملزم عدالتوں کے طویل سماعتوں کے دوران زندہ ہی مر جاتا ہے۔ وہ روز مرتا ہے اور روز جیتا ہے۔ مثال کے طور پر آسیہ مسیح نے جیل میں ۹ سال جن حالات میں گزارے، وہ اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ سپریم کورٹ میں ان کی بریت کا فیصلہ حاصل کرنے میں انہیں ۹ سال لگے۔ بری ہوجانے کے باوجود پاکستان سے باہر جانے میں انہیں مزید ۹ ماہ پاکستان میں کرب میں گزارنے پڑے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان میں معاملہ اتنا گھمبیر ہوگیا ہے کہ لوگ کسی کو بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر مار دیں یا پولیس کے حوالے کردیں۔ عدالت سے بری ہوجانے کے باوجود توہین رسالت کا کوئی ملزم پاکستان میں نہیں رہ سکتا۔ اس معاملے میں ریاست اتنی کمزور ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ جیسے بنیادی حقوق کا خیال بھی نہیں رکھ سکتی۔
یاد رہے 31 اکتوبر 2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کو بری کردیا تھا۔
آسیہ مسیح نے سزائے موت کے خلاف 2015 میں عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی جس کا فیصلہ سنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں آسیہ بی بی کو معصوم اور بے گناہ قرار دیا جب کہ فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو نو سال بعد ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں کھیت کے دوران کام کرتے ہوئے دو مسلمان خواتین نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا تھا۔