تحریر: سید سبطین شاہ
اگر ناروے کے دارالحکومت اوسلو آئیں تو ’’منڈلی‘‘ میں شریک نہ ہوں تو بات بنتی نہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آئیے، منڈلی کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ لفظ منڈلی تو ناپید ہوجانے والی زبان سنسکرت سے لیا گیا ہے جس کے معنی ٹولی، گروہ، جتھا، جماعت اور جھنڈ کے ہیں لیکن پٹھوہاری ثقافت میں یہ لفظ رچ بس گیا ہے۔ منڈلی یعنی ایک ایسا مقام ہے، جہاں لوگ مل بیٹھ کر آپس میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ خاص طور ایک دوسرے کا دکھ درد آپس میں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پٹھوہار کی ثقافت کا اہم جز ہے اور کسی بھی قوم کی ترقی میں ثقافت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ آج کل کے دور میں تو ثقافت قومی سلامتی کا بھی اہم ستون سمجھی جاتی ہے۔ یعنی سیاست، عسکریت (دفاعی صلاحیت)، معیشت اور ثقافت نیشنل سیکورٹی کے بہت اہم پہلو ہیں۔ ثقافت میں رسم و رواج، زبان، رہن سہن، ادب، کھیل اور سماجی اور اخلاقی اقدار بھی شامل ہے۔
ناروے میں دسیوں ہزار پاکستانی آباد ہیں اور ان میں اکثریت کھاریاں، گجرات کے لوگوں کی ہیں۔ ان پاکستانیوں میں بقیہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگ ہیں۔ مثلاً پھوٹھوار کے لوگ (اسلام آباد، راولپنڈی و گردونواح) بھی ایک بڑی تعداد میں ان نارویجن پاکستانیوں میں شامل ہیں۔ ان کی تنظیم اسلام آباد۔راولپنڈی ویلفیئرسوسائٹی ناروے کافی عرصے سے ناروے اور پاکستان دونوں جگہوں پر فلاح و بہبود کا کام کررہی ہے۔
ان پنڈی والوں نے ناروے میں ایک منڈلی بھی قائم کی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اوسلو کے مرکز میں چند گھنٹوں کےلیے شام کے وقت جمع ہوتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گپ شب لگاتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی معاملات پر بعض اوقات گفتگو انتہائی سنجیدہ بھی ہوجاتی ہے۔
گذشتہ دنوں راقم کے سفر ناروے کے دوران ان منڈلی والوں سے ملاقات ہوئی جن میں اسلام آباد۔راولپنڈی ویلفیئرسوسائٹی کے سابق صدر مرزا انور بیگ، ان کے سیاسی حریف اور سوسائٹی کے ایک اور سابق صدر جاوید اقبال، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) ناروے کے سینئر نائب صدر علی اصغر شاہد، سوسائٹی کے پہلے صدر مرحوم چوہدری نذیراحمد کے دو فرزند چوہدری مظہرحسین اور چوہدری عجب خان، ان کے فرزند طیب خان، ڈٓاکٹر شکیل احمد، ملک عبدالعزیز، خالد سلیم، شیخ آفتاب اور ذوالفقار بیگ قابل ذکر ہیں۔ ان شخصیات کے مابین پاکستان کی سیاست میں کون صحیح ہے، کون غلط ہے، کے موضوع پر زبردست مباحثہ ہوا۔ اس دوران پی پی پی ناروے کے سینئررہنماء میاں محمد اسلام، نارویجن پاکستانی مصور سید انورعلی کاظمی اور سماجی شخصیت حاجی ارشد حسین بھی چند لمحوں کے لیے منڈلی میں شریک ہوئے۔ اس دوران سوسائٹی کے موجودہ صدر مرزا ذوالفقار کی کمی محسوس کی گئی جو کسی وجہ سے اس دن منڈلی نہ آسکے۔
منڈلی میں اس بار دو اہم نئے رحجانات دیکھنے آئے۔ ایک یہ کہ سوسائٹی کے سابق صدر اور پی پی پی کے کہنہ مشق کارکن جاوید اقبال نے کہاکہ انہیں آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پالیسیوں سے سخت اختلاف ہے اور وہ عمران خان کی پالیسیوں کے زبردست حامی ہیں۔ جاوید اقبال کے بارے میں ان کے ساتھیوں نے یہ بھی کہاکہ وہ پی پی پی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے بعد میں اس بات کی تردید کی۔ البتہ انھوں نے اس بات کی ضرور تائید کی کہ وہ عمران خان کے زبردست حامی اور زرداری اور بلاول کی پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں۔ منڈلی میں ایک اور بات زیربحث رہی کہ مرزا انوربیگ جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا، وہ اپنے ساتھیوں سمیت پی پی پی میں شامل ہوگئے ہیں۔ مرزا انور بیگ نے بھی اس بات کی تائید کی کہ وہ پی پی پی میں شامل ہوچکے ہیں کیونکہ ان کے زیادہ تر دوست پہلے ہی پی پی پی میں موجود ہیں۔
منڈلی میں گفتگو کے دوران دلائل کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن یہ بحث شائستگی کے دائرے سے باہر نہیں نکلی۔ مرزا انور بیگ نے اپنے وضاحت کی کہ وہ کیوں پی پی پی میں شامل ہوئے ہیں اور جاوید اقبال نے اپنے بارے میں کہاکہ وہ کیوں عمران خان کے حامی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی معاملات پر ہونے والی گفتگو میں چوہدری مظہرحسین، چوہدری عجب خان، خالد سلیم اور ڈاکٹر شکیل نے بھرپور شرکت کی۔
سیاست اور سیاسی گفتگو اپنی جگہ پر اہم ہے لیکن شاید اسی بہانے ان پنڈی والوں نے ناروے میں منڈلی جیسی ایک قدیم روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس طرح کا تجمع (اجتماع) اپنی ثفافت کو زندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے عزیز دوست و بھائی سید آل عمران شاہ بھی اپنی دورہ ناروے کے دوران اس منڈلی میں شریک ہو چکے ہیں۔ سید آل عمران جو ایک نامور صحافی، شاعر اور ادیب ہیں، کو اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی عطاء فرمائے، جب وہ اس منڈلی میں آئے تو انھوں نے ایک جملہ کہاتھا، ’’منڈلی پخی ہوئی (گرم) ہے۔‘‘ جناب شاہ صاحب، آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ منڈلی ابھی بھی پخی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی سلامت رکھے جو اپنے آبائی وطن سے دور رہ کر بھی اپنی ثقافت کو اجاگر رکھے ہوئے ہیں اور منڈلی جیسی روایت کو ناروے جیسے دور کے ملک میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔