نارویجن پاکستانی مصور سید انورعلی کاظمی
اوسلو(خصوصی رپورٹ)۔
نارویجن پاکستانی مصور سید انورعلی کاظمی جنہیں پچھلے سال پاکستان میں کاروباری حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بلاخر پاکستان سے سرخرو ہوکر واپس ناروے پہنچ گئے ہیں۔
یادر ہے کہ انہیں لاہور میں پچھلے سال اکتوبر میں ملک ریاض محمود (ملک ریاض آف بحریہ ٹاؤن نہیں) نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور زبردستی ان کا فیملی ریسٹورنٹ بند کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ سید انورعلی کاظمی نے اس پر مقدمہ درج کروایا اور اپنے وکلا محمد جمشید اور آفتاب باجوہ کے ذریعے عدالتوں میں اپنا دفاع کیا۔ ملزمان کی ضمانتیں کنسل ہوئیں اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے۔
اس دوران سید انورعلی کاظمی نے بڑی جرت اور بہادری کے ساتھ اعلیٰ حکام اور عدالتوں میں اپنا موقف پیش کیا اور ملزمان کے انتہائی حربوں کے باوجود کامیابی سے کیس کی پیروی کی۔
بلاخر ملک ریاض محمود جو اپنے علاقے کی بااثر شخصیت ہیں اور ان کے ساتھی اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہوئے جس پر سید انور علی کاظمی نے درگزر کرتے ہوئے مقدمات واپس لے لئے۔ ملک ریاض نے ریسٹورنٹ اور دوسری تمام اشیاء بھی سید انور علی کاظمی کو واپس کردیں۔ ایک بڑے مجمعے میں اس بات کا فیصلہ ہوا اور ملک ریاض نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنیاد ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، خاص طور پر وہ سادات کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
سید انور علی کاظمی جو چند ہفتے پہلے ناروے واپس آئے ہیں، ذہنی اضطراب سے نکلنے کے بعد نارویجن پاکستانیوں کے امور پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی محقق سید سبطین شاہ کو بتایا کہ جب ملک ریاض اور اس کے ساتھیوں نے معذرت کی تو انھوں نے بھی خدا کی رضا کی خاطر معاف کردیا۔
سید انورعلی کاظمی پاکستانی دانشور سید سبطین شاہ سے محو گفتگو (فائل فوٹو)۔
انورکاظمی نے کہاکہ میں ان تمام افراد کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مشکل وقت میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان میں اور پھر ناروے میں رہنے والے پاکستانیوں کے وہ بہت شکر گزار ہیں جنہوں نے میرے ساتھ ہمدردی ظاہر کی۔
انھوں نے خاص طور پر پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس سلسلے میں پاکستان میں حکام بالا کو خطوط لکھے۔
ناروے میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے سید انور علی کاظمی کی بہادری کو سراہا ہے اور کہاکہ جس جرت سے انور علی کاظمی نے پاکستان میں ظالمانہ رویوں کا مقابلہ کیا اور کیس میں کامیابی کے بعد فراخدلی سے معاف بھی کردیا، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔