(تحریر ،محمد طارق)
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بقول فلاحی ریاست کا نظام دیکھنا ہو ، سیکھنا ہو تو سیکنڈنیون مممالک کو دیکھو –
آج پھر جمہوری تنظیم کی ایک اور مثال آپ کے سامنے رکھتے ہیں ، کہ کس طرح کسی بھی تنظیمی ڈھانچے میں ، وہ تنظیمی ڈھانچہ چاہے سماجی ، سیاسی یا کسی کھیل کی تنظیم کا ہو کہ جب اس کے تنظیمی ڈھانچے کے اندر حقیقی جمہوری روایات ، مساوات پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ تنظیم پھر کس طرح پرفارم کرکے عالمی دنیا میں پہلوں نمبروں میں جگہ لیتی ہے ، کس طرح انتہائی مثبت نتائج دیتی ہے –
ملک ناروے کی آبادی کوئی 5 ملین کے قریب ہے ،اس ملک کی آبادی دیکھیں پھر ناروے کی دنیا کے عالمی کھیلوں میں ان کی پرفرمانس ، ان کی درجہ بندی کو دیکھیں ، کہ کس طرح اس چھوٹے سے ملک کے کھلاڑی کھیلوں کے بین الاقوامی منظر نامے میں اپنی دھاک بٹھائے بیٹھے ہیں ، انہی صحت مندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ان لوگوں کی اوسط عمر دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ ، ساتھ ہی خوش و خرم زندگی گذرانے کے بین الاقوامی انڈکس میں بھی پہلے نمبر پر –
اب یہ سوچنا ہے کہ ایسا کیوں ہے ، حالانکہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کے پاس دولت کے انبار بھی ہیں ، آبادی بھی زیادہ ہے ، لیکن یہ سوائے ایک آدھ کھیل کہ کسی دوسرے کھیل میں بین الاقوامی دنیا میں اپنا لوہا نہیں منوا سکے ، اس کی وجہ جیسے اکثر عمران خان صاحب بات کرتے ہیں کہ ان ممالک کا ، ان ممالک کی تنظیموں کا گورننگ سسٹم فیل اور نکما ہے –
دوسری طرف بہترین گورننگ سسٹم ماڈل کی ہم آپ کو ایک جھلک دیکھاتے ہے کہ کس طرح ایک حقیقی جمہوری روایات پر مبنی تنظیمی ڈھانچہ اس تنظیم کی پرفرمانس کو چار چاند لگا دیتا ہے –
جیسے کہ پہلے بتایا ہے کہ ناروے کی آبادی 5 ملین ، اس ملک کے رجسٹرڈ کھلاڑی اور کھیلوں سے وابستہ افراد 2 ملین ، یعنی 20 لاکھ افراد ، جو ہر روز ملک کے ہر کونے میں دنیا کے ہر کھیل میں کبھی آپ کو ٹریننگ کرتے نظر آئیں گے ، یا کبھی میچ کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے ، وہ کھیل فٹ بال ہو ، ہاکی ہو، اتھلیٹک ہو، تیراکی ہو ، کشتی ہو ، کر اٹے ہو، باکسنگ ہو، کرکٹ ہو ، آئس ہاکی ہو ، برف پر دوڑنے والے کھیل اسکینگ ہو ،ہینڈ بال ہو ، والی بال ہو ، ٹینس ہو ، اسکواش ہو ، گالف ہو، گھوڑا ریس ہو ، کار ریس ہو، سائیکلنگ ریس ہو، میراتھن ریس ہو ، غرض کہ دنیا کا کوئی کھیل ہو اس میں آپکو ناروے کے مرد ، خواتین حصہ لیتے ہوئے نظر آئیں گے ، کھلاڑیوں کے حصہ لینے کے ساتھ اس ملک کے کھیلوں کا انفراسٹرکچر یعنی کھیل کے میدان تو وہ بھی اعلئ درجے کے ، جب اتنے زیادہ کھیل ، 20 لا کھ افراد اور اتنا بڑا انفراسٹرکچر کو سنبھالنے کے لیے کوئی گورننگ سسٹم تو چاہیے ہوگا ، جس نے ان ساری سہولیات کو برقرار رکھنا ہے ، 20 لاکھ افراد کو ساتھ لے کر چلنا اور ان کو متمن رکھنا بھی ایک کا م ، مزے کی بات اس سارے گورننگ سسٹم میں حکومت کا کوئی برراست کردار بھی نہیں –
جیسے ہمارے ہاں پاکستان میں کرکٹ بورڈ کا چیف پیٹرن صدر یا وزیراعظم ، اور نیچے پاکستان کرکٹ بورڈ کا اپنا آئین ہی موجود نہیں ، اسی طرح دوسرے پاکستانی کھیل، جیسے فٹ بال میں پاکستان 2 ، 2 فٹ بال فٹ بال ایسوایشن بنی ہوئی ہیں اور اوپر سیاست دان فیصل صالح حیات اور سلیمان بٹ لڑ رہے ہوتے ہیں ، پاکستان میں فٹ بال کا بیڑہ غرق کر رہے ہوتے ہیں –
سینکڑوں کھیل ، لاکھوں کھلاڑیوں کو کس طرح ایک مربوط، مضبوط ، حقیقی جمہوری روایات پر مبنی تنظیمی ڈڈھانچہ ہر قسم کی سہولیات بروقت مہیا کرتا ہے ، ناروے کے ہر کھیل کے کلب میں ایک مکمل جمہوری تنظیمی ڈھانچہ ، پھر اس کھیل کی پہلے ضلعی لیول ، پھر ملکی لیول پر اس کھیل کی قومی فیڈریشن ہوتی ہے جیسے نارویجین فٹ بال فیڈریشن، ہر سطح پر کلبوں کے ممبران نے جمہوری طریقہ کار سے اپنے نمائندے ضلعی ، قومی لیول پر منتخب کرکے بھیجتے ہیں ، پھر یہی نمائندے اپنے کلب ، اپنے کھیل کے ایشوز ملکی فیڈریشن کے سامنے رکھتے ہیں ، ان کو حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں ، ساتھ ہی یہی نمائندے اپنے کلب کے ممبران کے آگے جواب دہ ہیں –
ہر کھیل کی فٹڈریشین کے ساتھ سارے کھیلوں کی فیڈریشن مشترکہ ایک اجتماعی نمائندہ فیڈریشن بھی ہے ، اس کا نام نیشنل سپورٹس فیڈریشن ہے ، یہ نیشنل سپورٹس فیڈریشن حکومت کے ساتھ ملکر کھیلوں کی پالیسیاں بناتی ہے ، حکومت سے کھیلوں کے لیے بجٹ ، کھیل میدانوں کے لیے جگہ کے حصول کے لئے کام کرتی ہے ، اس نیشنل سپورٹس فیڈریشن کا سالانہ اجلاس اس ویکنڈ 24، 25 ، 26 مئی 2019 کو اولمپکس سٹی میں منعقد ہوا ، اس اجلاس میں سب کھیلوں کی فیڈریشن کے منتخب نمائندوں نے شرکت کی ، اجلاس میں ملکی لیول کی کھیلوں کے متعلق نئی پالیسیاں بنائے گئ ، نئے قوانین پاس کیے گئے ، نئے پروجیکٹس پاس کئے گئے ، فیڈریشن کا بجٹ اور آڈیٹ رپورٹ پیش کی گئی ، آخر میں ملکی لیول کی سپورٹس کی گورننگ باڈی کے انتخابات کرانے گئے ، فیڈریشن کے الیکشن کمیشن نے اپنی طرف سے ایک 7 رکنی گورننگ باڈی کی تجویز فیڈریشن کے سامنے رکھی ، کہ ان کے خیال کے مطابق یہ گورننگ باڈی ملکی سپورٹس فیڈریشن کے لیے بہترین ٹیم ہے –
لیکن ساتھ ہی اجلاس ہال سے 2 مزید صدارتی امیدوار کے نام پیش کئے گئے ، جس کے بعد اب ملکی سپورٹس فیڈریشن کی صدارت کے لیے 3 امیدواروں کے درمیان مقابلہ پیدا ہوگیا ، جب ہال میں ووٹنگ ہوئی تو الیکشن کمیشن کا تجویز کنندہ صدارتی امیدوار 2 ووٹوں سے انتخاب ہار گیا ، جبکہ عام سپورٹس فیڈریشن ممبران کا تجویز کنندہ امیدوار جیت گیا ، دوسری طرف 3 صدارتی امیدوار پہلے مرحلے میں کم ووٹ لینے کی وجہ سے آخری مرحلے میں کوالیفائی نہ کر سکا ، اس طرح آخری مرحلے میں 2 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا –
کہنے کا مقصد پورے انتخابی عمل میں نہ کسی ایس ایم ایس ووٹنگ کی ضرورت ، نہ کسی لمبے چوڑے الیکشن کمیشن کی ، نچلی سطح سے لیکر ملکی سطح تک ہر جگہ ہر کھیل کی نمائندگی ہمشیہ رہی ، ساتھ ہی 20 لاکھ ممبران کے حقوق کا تحفظ اور ان کی خواہشات کا احترام ہر جگہ پر رکھا گیا ، اور ہر جگہ ہر ممبر کو فیصلہ سازی میں شریک کیا گیا –
یہ ہیں وہ جمہوری روایات جن کی وجہ سے سیکنڈنیون ممالک کا ہر سیکٹر میں گورننگ سسٹم دنیا میں پہلے نمبر پر ہے –