(تحریر ،محمد طارق)
ہر سال جب ماہ رمضان شروع ہوتا ہے ، تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پاکستانی چیئرٹی تنظیمیں ، این جی او ز
چندہ اکھٹا کرنے کی مہم کا آغاز کر دیتی ہیں ، چیئرٹی کے نام پر یورپ ، امریکہ ، عرب ممالک کے شہروں میں ہر روزے کی افطاری کے وقت کبھی ایک افطار ڈنر تو کبھی دوسرا افطار ڈنر، مزے کی بات اورسیز پاکستانی بھی اپنے گناہ بخشوانے ، زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے دل کھول کر اپنا حصہ ڈالتے ہیں ، لیکن یہ سادہ لوح اورسیز پاکستانی ان چیرٹی تنظیموں کے عہدے داروں سے یہ سوال نہیں کرتے کہ پاکستان میں یہ فلاحی تنظیمیں اور این جی او ز برسوں سے پاکستان میں کام کررہی ہیں ، لیکن پاکستان میں کسی بھی شعبے میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ، نہ تعلیم میں ، نہ صحت میں ، بلکہ ملک میں بے روزگاری ، بیماری ، غربت بڑھتی ہی جا رہی ہے – ایسا کیوں ہے ؟؟
پاکستان کو اگر کامیاب ریاست بنانا ہے ، تو این جی اوز ، چیئرٹی تنظیموں سے جان چھڑانا ہوگی ،اگر آپ کو قوم کے اجتماعی معاملات ٹھیک کرنے کا درد ہے تو پھر صرف اور صرف ریاستی نظام کو بہتر کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں –
آپ کے خیال میں ریاست کی طرف سے مہیا کی جانے والی خدمات میں اگر کوئی کمی ، کوتاہی ہے تو اس ریاستی کوتاہی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ، جیسے اگر کسی گاوں یا شہر میں کوئی سرکاری ہسپتال یا سکول صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہا تو اپنے گاوں ، یا اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر اس سکول ، ہسپتال کو بہتر کرنے کے لیے کام کریں ، اپنے گاوں یا ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر متعلقہ حکومتی محکموں ، متعلقہ وزرات سے زوردار طریقے سے اہل علاقہ کا حق لیں ، نہ کہ آپ اپنی فلاحی تنظیم یا این جی او کھڑی کرلے اس اجتماعی خدمات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ، جو کہ انتہائی خطرناک عمل ہے انہی این جی اوز ، چیئرٹی تنظیموں کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ تقسیم ہوکر رہ گیا ہے ، کیونکہ چیئر ٹی پر چلنے والے ہر سکول ، مدرسے کا علحیدہ علحیدہ تعلیمی نصاب اور ہسپتالوں کی الگ الگ خدمات –
شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اس لیے کمزور ہیں ، کہ عوام ریاست کو ٹیکس دے کر بھی ریاست سے اپنا حق مانگنے کی کوشش نہیں کرتی ، ریاستی بیوروکریسی عوام کی طرف سے کسی پوچھ گچھ نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ،صحت کے بجٹ سے بڑی رقم خرد برد کر دیتی ہے –
یاد رکھے ملک و معاشرے چیئرٹی تنظیموں کو فروغ دینے سے کبھی مضبوط نہیں ، ملک و معاشرے صرف اور صرف ریاستی نظام ، ریاستی اداروں کو ٹھیک کرنے کی کوششوں سے بہتری کی طرف جاتے ہیں ، اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں –