(تحریر، محمد طارق )
سیکنڈنیوا کے ملک ناروے میں جمہوریت کیسے پروان چڑھتی ہے ، اس جمہوریت کی وجہ سے ناروے پوری دنیا میں انسانی ترقی انڈکس میں پہلے نمبر پر ہے –
ناروے میں جب بچے پرائمری سکول کی تیسری، چوتھی جماعت میں پہنچتے ہیں تو وہاں سے جمہوریت کی تربیت کا آغاز ہوتا ہے ، اس وقت بچے کی عمر نو ، دس سال ہوتی ہے ، جمہوری روایات ، اقدار کا اس سے بہتر نمونہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا –
جب بچے تیسری ، چوتھی جماعت میں پہنچتے ہیں تو سکول شروع ہونے کے دوسرے ہفتے ہی یہ فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ سکول کے اساتذہ ، سکول کی انتظامیہ اور طلباء سکول کے اجتماعی معاملات کو کس طرح بہتر کر سکتے ہیں ، یعنی سکول میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جاتا ہے ، جہاں پر صرف اور صرف تینوں فریقین کے اجتماعی معاملات پر بات کی جاتی ہے اس مشترکہ پلیٹ فارم میں اساتذہ، طلبا اور سکول کی انتظامیہ کے نمائندے شامل ہوتے ہیں ، ساتھ ہی چوتھی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک ہر جماعت میں 2 یا 3 طلباء ممبران پر ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جو اس کلاس کے مسائل سکول کے پلیٹ فارم میں لے کر جاتی ہے اور انہیں حل کروانے کی کوشش کرتی ہے ، اب اس سارے عمل میں جو اہم نکتہ ہے کہ چوتھی جماعت کے بچوں کی نمائندہ کمیٹی کون تشکیل دیتا ہے یا بناتا ہے، یہ ہے وہ بنیادی نکتہ جس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے –
سکول میں نیا پڑھائی سال ہونے کے دوسرے ہفتے ہی میں اساتذہ اپنی اپنی کلاس میں بچوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آپ نے 3 ممبران کی ایک کمیٹی تشکیل دینی ہے ، جو کلاس کے مجموعی مسائل اساتذہ کے سامنے اور سکول کے مشترکہ پلیٹ فارم میں لے کر جائیں گے ، یہ بات اساتذہ کلاس میں طلباء کو بتاتے ہیں کہ آپ آپس میں مل کر فیصلہ کریں کہ کون 3 طلباء آپ کی کلاس کے مسائل حل کرنے کے لیے ہمارے ساتھ مذاکرات میں آپ کی نمائندگی کریں گے ، اساتذہ یہ بات کرکے کلاس سے باہر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ 15 منٹ میں واپس کلاس میں آئیں گے ، اس وقت تک ہم امید کرتے ہیں کہ آپ طلباء ایک 3 رکنی کمیٹی کا چناؤ کر چکے ہونگے ،اور پھر ایسے ہی ہوتا ہے –
اساتذہ کے باہر جانے کے بعد چوتھی کلاس کے طلباء جن کی تعداد تقریبا 30 تک ہوتی ہے آپس میں بات چیت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کس طالب علم نے کلاس اور سکول کے اجتماعی معاملات کو بہتر کرنے میں اپنی خدمات مہیا کرنی ہے ، یا آگے بڑھ کر اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے ، ظاہر ہے کلاس کے سارے طالب علم یا بچے ایسا نہیں سوچتے ، بس چند بچے اپنا نام یا کلاس میں اپنے دوست کا نام اس کمیٹی کے لیے تجویز کرتے ہیں ، اب کمیٹی کو 3 نام چاہیے ، لیکن اکثر 6 یا 7 بچے کلاس کمیٹی کا رکن بننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ، اب جب 3 طلباء کی کمیٹی بننا ہے ، تو پھر یقینی طور پر کلاس میں ووٹنگ کرانی جائے گی ، اس ووٹنگ عمل کو پورا کرنے کے لیے 2 یا 3 مزید طلباء کو کلاس سے لینا پڑے گا ،اس طرح کلاس کی ووٹنگ کاوئنٹ کمیٹی بن جائیگی –
اب ووٹنگ کمیٹی کلاس میں طلباء سے سوال کرتی ہے کہ ووٹنگ ہاتھ اٹھا کر کی جائے ،یا خفیہ ، جو بھی کلاس کے طلباء جواب دیتے ہیں ، اسی طریقے سے کلاس میں ووٹنگ شروع ہو جاتی ہے ، آخر میں ووٹنگ کمیٹی ووٹ کاوئنٹ کرتی ہے اور جو 3 طلباء زیادہ ووٹ لیتے ہیں، وہ سکول کے اجتماعی معاملات کے پلیٹ فارم پر اس کلاس کے ایک سال کے لئے منتخب نمائندے بن جاتے ہیں ، اس طرح یہ جمہوری عمل ہر سال ہر کلاس میں دہرایا جاتا ہے ، یعنی چوتھی جماعت سے لیکر یونیورسٹی تک –
یاد رکھے اس پورے جمہوری عمل میں کسی اساتذہ نے یہ نہیں کہا ، یا کہنے کی کوشش کی استاد بذات خود کلاس سے 3 طلباء کو مقرر کرے گا ، جو کے سکول کے اجتماعی معاملات کے پلیٹ فارم پر اس کلاس کی نمائندگی کریں گے ، نہ ہی استاد نے طلباء کی ووٹنگ کاوئنٹ کمیٹی تشکیل دینے کی کوشش کی ، حالانکہ استاد طلباء سے زیادہ پڑھا لکھا ، عمر سے بھی بڑا ،وہ کلاس کے طلباء سے زیادہ بہتر نمائندہ کمیٹی دینے کی پوزیشن میں ہے ، لیکن وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا ، نہ ہی طلباء اس کو ایسا کام کرنے دیں گے –
ایسا کیوں ہے کیونکہ انسان آزاد ہے ، انسان اپنے اجتماعی زندگی کے معاملات کو بہتر کرنے میں بااختیار ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرے گا کہ اس کے لیے بہتر کون-
چوتھی کلاس سے شروع ہونے والی جمہوری تربیت سے جب وہ طالب علم بالغ ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھ کر کسی بھی سیاسی ، سماجی تنظیم کا ممبر بنتا ہے ،تو پھر وہ جمہوری عمل کے اس بنیادی اصول پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتا ، کہ ہر اجتماعی معاملے میں ممبران ، لوگوں نے مل کر فیصلہ کرنا ہے، نہ کہ فیصلہ ایک مخصوص ٹولہ کرے اور اسے جمہوریت قرار دیا جائے –