(اوسلو خصوصی رپورٹ)
ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی مساجد کے باہر نماز جمعہ کے دوران مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد مسلمانوں سے یکجہتی کے لیے جمع ہوئے۔
اس دوران بعض لوگوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مسلمانوں کی سلامتی اور ان کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کے لیے نعرے درج تھے۔
اوسلو شہرکے اسلامک کلچرل سنٹر کے باہر مسیحی، سکھ، یہودی اور دیگر مذاہب کے لوگ اس وقت تک کھڑے رہے جب تک مسلمان نماز جمعہ کے لیے وہاں موجود تھے۔
اسی دوران اوسلو کی خاتون میئر مس ماریانہ بورگن نے اسلامک کلچرل سنٹر کی مسجد کا دورہ کرکے وہاں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔
اوسلو کی میئر نے اپنے خطاب کہاکہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔ ہمیں مل کر انتہائی پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ معاشرے میں بعض لوگ اسلاموفوبیا پر مبنی نسلی مذہبی تعصب کا شکار ہوگئے ہیں اور ہمیں انتہائی تدبر سے اس تعصب کا تدارک کرنا ہوگا۔
اوسلو کے بشپ برنت ایدسوگ نے بھی مسجد میں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ مسلمان اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کریں۔
دراثناء اوسلو کی میئرنے اسلامک کلچرل سنٹر کے منتظمین قائم مقام صدر میاں اخلاق احمد، جنرل سیکرٹری ساجد الہٰی، امام سنائت، امام فاروق ترزچ، امام سید فضل ہادی حسن، محمد اسلم، ثمینہ رضوان، عظمی خان اور ام اقصٰی سے ملاقات کی۔
اسلامک کلچرل سنٹر کے باہر جمع ہونے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہ کریں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ وہ اپنی عبادت کو پرسکون طریقے سے اور مطمئن ہوکر انجام دیں۔
جمعہ کے روز حکمران جماعت ’’ھورے پارٹی‘‘ کے رہنماووں نے پاکستانی نژاد سیاستدانوں عامرجاوید شیخ اور طلعت بٹ کے ہمراہ اوسلو کی مسجد مرکزی جماعت اہل سنت کا بھی دورہ کیا اور مسجد کی سیڑیوں پر شمعیں روشن کرکے مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ بعض لوگوں نے مساجد میں پھول بھیج کر مسلمانوں کے بارے میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اوسلو کے گورننگ میئر ریمانڈ جوہاہنسن نے بھی لیبرپارٹی کے پاکستانی نژاد رہنماووں چوہدری خالد محمود اور امیدوار برائے اوسلو سٹی پارلیمنٹ ڈاکٹر مبشر بنارس کے ہمراہ مسجد کا دورہ کیا۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں گذشتہ جمعہ کے روز دومساجد پر دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں دنیا کے دیگر خطوں کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی فضا سوگوار ہے اور اس موقع پر لوگ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں۔
اسلامک کلچرل سنٹر اوسلو سے وابستہ پاکستانی نژاد ممتاز عالم دین سید فضل ہادی حسن کے بقول، اگرچہ نیوزی لینڈ کے واقعے میں پچاس مسلمان شہید ہوئے لیکن اس واقعے پر ردعمل کے طور مختلف مذاہب کے لوگ مسلمانوں سے یکجہتی کے لیے میدان میں آئے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اب مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ ان لوگوں کا بھرپورانداز میں خیرمقدم کریں جو ان سے یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس سے اسلام کے حوالے سے ایک مثبت تاثر پیدا ہوگا اورخاص طور پر مغرب میں مسلمانوں کے ساتھ عام لوگوں کی ہمدردی مزید بڑھے گی۔
انہوں نے کہاکہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور تمام انسانوں کو مل کر دہشت گردانہ اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرکے دنیا کے امن کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
اوسلو کے قریبی شہر دریمن میں بھی مسجد کے باہر مختلف مذاہب کے لوگوں نے جمع ہوکر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
انتہائی پسندی کے موضوعات پر گہرے نظر رکھنے والے پاکستانی ریسرچ سکالر اور صحافی سید سبطین شاہ کا کہنا ہے کہ انتہائی پسندی کو روکنے کے لیے معاشرے میں نچلی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ گھر کی تربیت سے لے کر معاشرے تک تمام پہلووں کا جائزہ لے کر اس موذی عنصر کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ خاص طور پر ان عناصر کو روکنا ہوگا جو انتہا پسندی کو سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کرتے ہیں۔ معاشرے کے سادہ لوح اور انسانی اقدار کا کم علم رکھنے والے لوگوں کو آسانی سے انتہاپسندی کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے۔