(تحریر ،محمد طارق )
لی فی یل پہاڑ پر
شلالام اور اسکینگ کا سفر –
مغربی یورپ کے شمال میں واقع ملک ناروے میں 3 ، 4 ماہ برف پڑتی ہے ، سال 2019 کے پہلے 2 ماہ میں گذشتہ کئ سالوں کی نسبت بہت زیادہ برف پڑی ، ملک میں برف باری کے باوجود روزمرہ زندگی کے معاملات رکتے نہیں بلکہ معمول کے مطابق چلتے رہتے ہیں ، زیادہ برف کی وجہ سے فروری کے مہینے میں ملکی تعلیمی اداروں کو حکومت کی طرف سے ایک ہفتے کی چھٹی دی جاتی ہے ، تاکہ والدین اور بچے مل کر برف میں ہونے والے کھیلوں سے لطف اندوز ہوسکے ، اس لیے ملک کے مختلف پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کھیلوں کے بڑے بڑے گراونڈ بنائے گئے ہیں ، جہاں پر بچے ، نوجوان ، بڑی عمر کے لوگ اپنی اپنی پسند ، اپنی اپنی اہلیت کے مطابق ان برف کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں ، ایک کھیل لمبی اسکیٹنگ ہے ، یعنی پہاڑوں کے اوپر جنگل میں 3 کلومیٹر سے لیکر 50 کلومیٹر کے فاصلے تک آپ اسکیٹنگ کر سکتے ہیں ، ہم بھی اسی کھیل میں حصہ لیتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں کہ 5 ، 10 کلومیٹر کا فاصلہ طہ کیا جائے –
اس سال موسم سرما کی چھٹیوں میں ہم بہن بھائی، اور تایازاد بھائیوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس دفعہ کس پہاڑ کی چھت پر جانا ہے ، کس جگہ برف کے کھیل اسکیٹنگ ، شلالام کی اچھی سہولیات میسر ہیں ، کس جگہ پہاڑوں میں برف کے بیچ اسکیٹنگ کے ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی ٹریک موجود ہوں ، تاکہ چھوٹے بچے جو 10 سال سے چھوٹے ہیں وہ اسکیٹنگ کرتے وقت اکیلے نہ ہوں ، بلکے بڑا بندہ ان کے ساتھ پیدل ٹریک میں ان کی دیکھ بھال کے لیے چلیں ، کیونکہ 10 سال سے بڑے بچے جن کو برف میں اسکیٹنگ کرنا آتی ہے ، وہ بڑی تیزی سے برف میں دوڑتے ہوئے یعنی اسکیٹنگ کرتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ، جنگل اور پہاڑوں میں میلوں دور نکل جاتے ہیں ، اس سال بھی یہ ذمداری ہمیں سونپی گئ کہ کسی ایسے جگہ کا انتخاب کریں جہاں یہ ساری سہولیات موجود ہوں ، اسطرح ہم نے چند نارویجین دوستوں کے طرف سے دیے گئے نام اور انٹرنیٹ معلومات سے لی فی یل پہاڑ پر جانے کا فیصلہ کیا-
لی فی یل پہاڑ پر جانے سے پہلے رات گزارنے ، رہنے کے لیے لی فی یل کے پاس 3 کاٹییج بک کرا دیے ، اس طرح ایک تایازاد بھائی کی ڈیوٹی لگی کہ وہ وہاں پر رہنے کے لیے کھانے کا بندوبست کریں ، تایازاد بھائی طاہر نے پہاڑ پر جانے سے پہلے 4 فیملز کے 4 دن کے حساب سے 20 بندوں کے کھانے کا سامان خرید کر اپنی گاڑی میں رکھ لیا ، اس طرح 4 گاڑیوں میں 8 بڑوں ، 6 نوجوانوں 6 بچوں کے ساتھ ہم پہاڑ پر سفر کے لیے نکل پڑے ، 4 گھنٹے کی ڈرائیونگ 200 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد ہم شام چھ بجے لی فی یل کے پہاڑ کے کاٹییج میں پہنچ گئے ، وہاں پہنچتے ہی نوجوانوں اور مردوں نے سامان گاڑیوں سے اتارا ، خواتین ، نوجوان شام کا کھانا تیار کرنے لگ گئے ، جبکہ ہم مرد صبح کی پلاننگ کرنے لگے کہ پہلے کیا کرنا ہے ، لیکن بچوں ، نوجوانوں کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ نوجوان شلالام کریں گے ، یعنی اونچے پہاڑ سے نیچے کی طرف اسکیٹنگ کرنا ، جبکہ بقیہ لوگ یعنی بچے اور لانگرن اسکیٹنگ کریں گے –
لی فی یل پہاڑ کی شلالام کی ڈھلوان 300 میٹر نیچے جاتی ہے ، یہاں پر شلالام کرنا مشکل کام ہے کیونکہ جب اسکیٹنگ کرتے نیچے جانا تو اسپیڈ انتہائی تیز ہو جاتی ہے ،30 کلومیٹر فی گھنٹہ سے لیکر 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جاتی ہے ، اس اسپیڈ میں اسیکنگ پر کھڑے ہو کر اپنے آپ کو کنٹرول کرنا شلالام کھیل میں مہارت اور تجربے سے ہی ممکن ہے ، اگر آپ کو اسکیٹنگ کرنے نہیں آتی یا مکمل مہارت نہیں ہے تو اس شلالام کھیل میں شریک نہ ہوں ، کیونکہ کہ اسکیٹنگ کرتے وقت ڈھلوان سے نیچے تیزی سے جانا انتہائی خطرناک کہ جیسے ہی آپ کا بیلنس خراب ہوا آپ دھڑام سے نیچے گریں گے جس سے آپکے جسم کا کوئی بھی حصہ ، بازو، ہاتھ ، ٹانگ، پاوں ، گردن ٹوٹ سکتے ہیں ، اس،لیے اس ڈھلوان پر سیکورٹی گارڈ ہو تے ہیں جو مکمل چھان بین کے بعد لوگوں کو اس جگہ اسکیٹنگ کرنے کی اجازت دیتے ہیں ، ساتھ ہی اس پہاڑی ڈھلوان میں ایک ایمبولینس کھڑی ہوتی ہے ، برف پر چلنے والے سکوٹر موجود ہوتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی کھلاڑی شلالام کرتے ہوئے گر پڑے اور وہ زخمی ہو جائے تو اسے اسی وقت طبی امداد فراہم کی جائے –
دوسرے دن کاٹییج میں ناشتہ کرنے کے بعد ہم سب لی فی یل پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ، جہاں پر نوجوان شلالام کرنے نکل گئے ، جبکہ ہم اور چھوٹے بچے پہاڑ کے جنگل میں اسکیٹنگ کرنے نکل آئے ،بڑے مرد ، خواتین ، بچوں جن کو اسکیٹنگ آتی تھی انہوں نے اپنی اپنی اسکینگ نکالی ، اس اسکینگ پر کھڑے ہو کر اسکیٹنگ کرتے ہوئے جنگل میں نکل گئے ، جبکہ ابھی میں تیار ہوکر اپنی اسکینگ پر کھڑے ہو کر اسکیٹنگ کرنے ہی لگا تھا کہ بیگم صاحبہ نے اطلاع دی کہ ابھی ابھی بیٹی عمیرہ کا فون آیا ہے کہ ہمارا چھوٹا بیٹا صارم جو 16 سال کا ہے شلالام کرتے ہوئے ڈھلوان پر سے گر پڑا ہے آپ لی فی یل شلالام پہاڑ پر پہنچے ، میں اور بیگم دوڑے دوڑے، گاڑی کو پارکنگ سے نکالا اور شلالام ڈھلوان پر پہنچ گئے ، دیکھا تو صارم صاحب بائیں بازو کو پکڑا ریڈکراس عملے کے ساتھ اندر بنچ پر بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے ہیں ، جب ہم نے صارم سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو کہنے لگا ، کہ میں بڑی تیزی سے نیچے اسکیٹنگ کرتے جارہا تھا کہ دھند کی وجہ سے مجھے موڑ صحیح طرح نظر نہیں آیا ، میری اسکینگ ایک جگہ خود بخود جام ہوگئ اور میں قلابازی کھاتے ہوئے دھڑام کرکے بائیں بازو کے بل گر گیا ، اب مجھے بازو میں درد ہو رہی ہے ، ریڈکراس کے عملے نے صارم کو چیک کیا ، کہا کہ لگ نہیں رہا کوئی خطرناک بات ہے ، لیکن آپ اسے ابھی نزدیکی ہسپتال لے جائیں اور ایکسرے کروالے ، ہمیں صارم کو قریبی سرکاری ہسپتال لے آئے وہاں پر ڈ ڈاکٹرز نے صارم کے بازو کا ایکسرے لینے کے بعد بتایاکہ ہڈی بچ گئی ہے ، بس تھوڑا سا کندھے کی ایک ہڈی میں فریکچر ہوا ہے ، چند ہفتے بعد ٹھیک ہو جائے گا صرف بائیں بازو کو ایک ہفتہ باندھ کر رکھے –
دوسری طرف سب نوجوان شلالام کرتے رہے ، بڑے اور بچے اسکیٹنگ ، شام کو جب سب کاٹییج واپس پہنچے تو صارم کا حال احوال پوچھنے کے بعد سب نے بتانا شروع کیا کہ شلالام کتنی پرخطر اور مزیدار تھی ،وہ اسکیٹنگ کرتے ہوئے کتنی بار 300 میٹر ڈھلوان سے نیچے گئے ، کتنی بار انہوں نے اوپر شلالام کی چوٹی پر آنے کے لیے لفٹ استعمال کی ، کتنی بار کون گرا ، کس نے سب سے مشکل ٹریک پر شلالام کی ، ان نوجوانوں کے بقول اس شلالام پہاڑی پر کافی لوگ تھے ، لیکن پہاڑی لفٹ ہونے کی وجہ سے کسی بھی جگہ انتظار کرنا نہیں پڑا، وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ گروانڈ ڈھلوان کے ساتھ مختلف جگہوں پر طبی سیکورٹی عملہ اس ڈھلوان کی نگرانی کررہا تھا کہ کسی بھی وقت کوئی کھلاڑی اگر گرے تو اسے فورآ طبئ امداد مہیا کی جا سکے ، دوسری طرف صارم جو زخمی ہونے کی وجہ سے آج اتنی دور آکر شلالام نہ کرسکا تھا ، اپنے بہن بھائیوں ، کزنز کی باتیں سن کر لال پیلا ہورہا تھا کہ میں ہوتا تو تم سب کو سب سے مشکل ٹریک پر شلالام کرکے دیکھاتا کہ کیسے شلالام کی جاتی ہے ، تو چند کزنز اسے جواب دیا کہ بیٹا پہلے ہی روانڈ میں تیزی سے نیچے جانے کا مزہ (سواد) چکھ لیا نا کہ تمھیں زخمی ہونا پڑ گیا ، تو وہ ان کی بات کا جواب سن کر غصے سے اپنی کرسی لے کر کمرے کے ایک کونے پر جا بیٹھ گیا ، ساتھ ہی منہ بسورنے لگا، جب میں نے کہا پتر پہلے گروانڈ کی ڈھلوان کو سمجھنا تھا اس کے بعد تیزی سے دوڑنا تھا ،کم ازکم پہلے روانڈ میں تو آہستہ آسان ٹریک پر نیچے جاتا تو نہ گرتا تو کہا ٹھیک ہے ، پھر کمرے میں اونچی آواز میں نارویجن زبان میں بولتے ہوئے کہنے لگا کہ اب 3 ہفتے تک فٹ بال کی بھی ٹریننگ گئی ، اپریل میں فٹ بال لیگ بھی شروع ہونے والی ہے ، اس کو اس کی پھوپھی ، ماں نے دلاسہ دیتے ہوئے ٹھنڈا کیا –
تو دوسری طرف جو گروپ لمبی دوڑ اسکیٹنگ پر گیا تھا انہوں نے وہاں پر کیا کیا ، سب سے آگے کونسا بچہ تھا ، انہوں نے بتایا کہ آج انہوں نے 5 کلومیٹر کا فاصلہ طہ کیا ، لیکن آگے نہ جاسکے کیونکہ آج پہاڑ میں دھند ، ہوا اور بہت ٹھنڈ تھی ، لحاظ سب 5 کلومیٹر کے بعد 3 گھنٹے میں پہاڑ سے نیچے اتر آئے –
دوسرے دن حسب معمول ناشتے کے بعد سب لوگ اسکینگ گراونڈ دن 12 بجے پہنچ گئے ، آج فیصلہ کیا گیا آج صرف اسکینگ کی جائے گی ، سب لوگ پہاڑ میں اسکیٹنگ کریں گے ، نوجوان بھی بڑوں کا فیصلہ بے دلی سے قبول کرتے ہوئے شامل ہوئے ، کیونکہ ان کا آج بھی شلالام کرنے کا دل تھا ، بحرحال 20 بندوں کے قافلے نے ایک جگہ سے اسکینگ دوڑ اسٹارٹ کی ، ساتھ ہی یہ کہ دیا گیا کہ 4 بجے سب لوگوں نے یہاں واپس پہنچنا ہے ، اسٹارٹ پوائنٹ کے بعد نوجوان تیزی سے اسکینگ کرتے ہوئے یک دم جنگل میں نکل گئے ، ہم چند بڑے آہستہ آہستہ اسکینگ کرنے لگے ، ہمارے ساتھ جو بڑے تھے ہم نے ان کو کہا کہ وہ بھی نکلے اور جائیں ، ہم آہستہ آہستہ کچھوے کی چال میں بغیر گرے چلنے کی کوشش کریں گے ، آج پہاڑ کے اوپر خوبصورت دھوپ نکلی ہوئی تھی ، موسم خوشگوار تھا ، ٹھنڈ نہیں تھی ، ہم نے آہستہ آہستہ 5 کلومیٹر کا فیصلہ 5 بار گرتے ہوئے طہ کیا ، کیونکہ تازی برف نہیں پڑی تھی ، پرانی برف سخت ہوگئ تھی ، اس وجہ سے اسکینگ کو موڑ میں موڑ تے وقت دقت ہوتی تھی ، اسکینگ مڑنے کے بجائے سیدھی نکل کر اپنے ٹریک سے باہر نکل جاتی تھی تو پھر مجبوری میں ہمیں اسکینگ کو روکنا پڑتا تھا ، اس طرح ہم گرتے گراتے واپس سٹارٹنگ پوائنٹ پر پہنچ گئے ، تھوڑی دیر بعد دوسرے گروپ ممبر 15 کلومیٹر کا فاصلہ طہ کرکے سردی میں پسینے سے شرابور اپنی منزل پر واپس آگئے ، اسطرح آج کا دن مکمل اسکیٹنگ کے ساتھ گذرا، بچوں سے لیکر بڑوں تک ہر کسی نے اپنی صلاحیت کے مطابق اسکینگ دوڑ میں حصہ لیا ، شام کو سورج ڈھلتے ہی سب لوگ کاٹییج واپس پہنچ گئے ، اسطرح رات کاٹییج میں آرام کرنے کے بعد اگلی صبح ، چوتھے دن واپس گھر کی راہ لی –
جب آپ پہاڑ کی چوٹی پر کھلے جنگل میں اسکیٹنگ کرتے ہوئے قدرتی نظاروں کو دیکھتے ہیں ، کہ ہر طرف استری کی ہوئی چادر کی طرح زمین پر برف پڑی ہوئی ہوتی ہے ، آپ اس کے درمیان اسکیٹنگ کرتے ہوئے گزرتے ہیں ،تو جنگل پہاڑ کی خوشبو ، ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوائیں ، پرسکون ماحول کو پاکر سارے سال کی مصروفیات کی تھکان دور ہو جاتی ہے ، شام کو پہاڑوں کے بیچ برف کے ٹھنڈ ے موسم میں، چھوٹے چھوٹے گھر یعنی کاٹییج میں آکر گرم گرم بریڈ کے ساتھ سبزیوں کے بنے گرم سوپ پیتے ہیں تو آپ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں ، سیکنڈنیون ممالک کے لوگ کیوں کر خوشحال ، اور دنیا میں سب سے زیادہ فی کس پیداوار میں سب سے آگے کیوں ہیں ، وجہ صرف یہ کہ یہ لوگ کام کے وقت مکمل فوکس ، چوکس ہو کر کام کرتے ہیں ، جب چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں تو وہ بھی بڑے پر سکون طریقے سے ، مکمل لطف اندوز ہوتے ہوئے بچوں ، عزیزواقارب سے مل کر گذراتے ہیں –