معاشی عدم توازن، آج کی دنیا کا بڑا چلینج ؟

(تحریر، محمد طارق)

معاشی عدم توازن تشریح کی اسطرح ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے گروہوں کے درمیان پائے جانے والی غیر مساویانہ تفریق جو کہ دولت کی بنیاد پر ہو، معاشی عدم توازن کہلاتی ہے۔ یہ غیر مساویانہ فرق بالآخر متضاد رجحانات کی جانب کی طرف رخ کرتی ہے، جس سے معاشرے میں احساس محرومی، نفرت اور کچھائو پیدا ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہی عوامل بالآخر بڑے اور سیاسی احتجاج اور افراتفری کا باعث بنتے ہیں۔

امریکی ماہرِ معیشت دانوں کے مطابق ۱۹۸۰ء میں ایک فیصد امریکی کُل آمدنی کا ’’صرف‘‘ دس فیصد حصہ سمیٹ لیتے تھے۔ اُن کی تحقیق کے مطابق آج کل یہ تناسب بائیس فیصد کے قریب ہے کیونکہ تنخواہوں میں برابری کم ہو گئی ہے اور دولت مندوں نے سرمائے سے حاصل ہونے والے ثمرات سے فائدہ اٹھایا ہے-

مغربی ممالک امریکہ اور یورپ میں امیر طبقے کی دولت کے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے ہر 10 لاکھ لوگوں میں 124 لوگ انتہائی دولت کے مالک ، جبکہ یورپ میں ہر 10 لاکھ لوگوں میں 470 لوگ انتہائی امیر ، کثیر دولت کے مالک ہیں –

پوری دنیا میں تقریباً 90 فیصد لوگ معاشی عدم توازن کی وجہ سے مشکلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مختلف طرح کے ذرائع آمدن سے انسان سیاسی ، انتظامی طاقت حاصل کرتا ہے ، پھر اس طاقت سے مزید سرمایہ سمیٹتا ہے –

80 کی دھائی سے لیکر اب تک دنیا کے سب ممالک میں معاشی عدم توازن میں اضافہ ہوا ہے ، جس سے 5 براعظموں میں امیر، امیر سے امیر تر ہو رہا ہے ، اور غریب ، غریب سے مزید غریب ہو رہا ہے، اس معاشی عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے دنیا کے سیاست دان، سماجیات ، معاشیات کے ماہر مختلف قسم کے حل پیش کر رہے ہیں ، تاکہ مستقبل میں انسانی زندگی کو جنگ سے بچایا جا سکے ، زیادہ تر ماہرین کے مطابق دنیا کے ممالک اپنے اپنے ملکوں میں ایسی پالیسیاں مرتب کریں ، جس سے غریب اور نچلے طبقے کی معاشی حالت بہتر ہوسکے ، ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوسکے ، یہ ممالک ایسی پالیسیاں بنانے سے گریز کریں جس سے امیر طبقے کی معاشی حالت خراب ہو جائے ، کیونکہ ایسے ماہرین کے خیال کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد مسلسل محنت ، خطرات سے لڑتے ہوئے اس سطح پر پہنچے ہیں ،

لیکن

اس کے ساتھ بعض ماہرین کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد کو مزید امیر ہونے کی رفتار کو کم ہونا چاہئے ، اس امیر طبقے کی ضرورت سے زائد دولت کو بذریعہ حکومتی ٹیکسز اجتماعی حکومتی اداروں پر خرچ کرنا چاہیے ، تاکہ ہر ملک کا شہری زندگی کی بنیادی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکے ، امیر ترین افراد کو مزید امیر ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر یہی طبقات ملکوں کے انتظامی ، حکومتی ڈھانچے پر قابض ہو جاتے ہیں ، جس سے معاشروں میں ہر سطح پر عدم مساوات ، ناانصافی کا نظام جڑ پکڑنے لگتا ہے ، جس سے معاشروں میں نفرتیں بڑھتی ہیں اور کسی بھی وقت ملکوں کے اندر خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے –

کسی ملک کی میں جب امیر طبقے یا اپر کلاس کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہو تو پھر ایسے ملک میں جمہوری نظام کی بساط لپٹنا شروع ہو جاتی ہے ، اس کی مثال آپ خلیجی ممالک میں عرب بادشاہت ، بادشاہوں کے عزیزواقارب کی بڑھتی ہوئی دولت دیکھیں جو آمریت کے فروغ کا باعث بن رہی ہے –

امیر طبقے کے ہاتھ مزید دولت آنے سے دنیا کے امیر ممالک میں حکومتی طاقت بھی امیر طبقے کے ہاں یرغمال ہورہی ہے ، بائیں بازو نظریات کے حامی ماہرین کے مطابق طاقت کے عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی مزدور یونینز ، سماجی تنظیمیں مل کر امیر طبقے کی کاروبار حکومت میں بڑھتی ہوئی طاقت کو روکیں تاکہ اجتماعی سیاسی پالیسیاں متوسط ، غریب طبقے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جائیں ، ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حکومتوں پر بھرپور سیاسی دباؤ رکھیں ، جس سے حکومتیں ایسا ٹیکس نظام ، معاشی پالیسیاں بنائے جس سے ملکی دولت ، ملکی ذرائع دولت امیر طبقے کے ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ یہ دولت منصفانہ طریقے سے تقسیم ہوکر غریب ، نادار طبقے کی زندگیوں کو سہل کر سکے –

Recommended For You

Leave a Comment