(رپورٹ ،محمد طارق )
سماجی تنظیموں دیا پراکسس اور شسمو کلچر آرگنائزیشن کے باہمی اشتراک کے تحت میری آواز میرا حق سمینار اوسلو میں آرگنائزر کیا گیا ، جس میں ناروے میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے مختلف اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی ، اس کے ساتھ پاکستان سے آئے ہوئے سابق وزیراعلی شہبازشریف کے مشیر سلیمان صوفی ، سری لنکا ، افغانستان کے سفیر بھی اس سمینار میں شریک ہوئے –
نارویجین لیبر یونین کمیٹی کی رکن صوفیہ رانا نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے-
صوفیہ رانا نے دیا پراکسس کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم نارویجین پاکستانی شہریوں کے معاشرتی ، سماجی، مسائل مسائل حل کرنے کے لیے میدان عمل میں ہے –
پہلی مقرر دیا پراکسس کی آمنہ قریشی تھی ،آمنہ قریشی نے اپنے استقبالیے خطاب میں آج کے پروگرام کا ایجنڈا بتانے کے ساتھ سمینار شرکا کو خوش آمدید کہا ، اس کے بعد آنے والے مقررین کا تعارف کرایا کہ وہ کس کس فیلڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں –
نارویجین انسانی حقوق کے وزیر کی مشیر نے اپنے خطاب میں اس سال شائع ہونے والی تحقیقی ادارے فافو کی ایک تحقیق رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اعدادوشمار پیش کیے،
اس ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان ، صومالیہ ، سری لنکا
کے نوجوان اپنی زندگی گذرانے میں قدرے آزاد ہوئے ، لیکن پاکستانی ، صومالی نوجوان خواتین اب بھی اپنے خاندان اور اردگرد ماحول کے سماجی کنڑول میں ہیں ، جس سے ان کو آزادنہ ازوادجی زندگی گذرانے میں دقت پیش آرہی ہے –
اس ریسرچ رپورٹ میں 7600 نوجوانوں سے 4 مختلف سوال کیے گئے ، ان 7600 میں سے 3000 نوجوانوں کا تعلق صومالیہ اور پاکستان سےہے-
(سوال نمبر 1)
مجھے فارغ وقت میں اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جانے کی اجازت نہیں ، اس سوال کے جواب میں 20 % پاکستانی ، صومالی نوجوانوں نے جواب دیا کہ ان کو والدین کی طرف سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی –
(سوال نمبر 2 )
مجھے فارغ وقت میں مخالف جنس دوستوں کے ساتھ بغیر بالغ سرپرست سے باہر جانے کی اجازت نہیں –
اس سال کے جواب میں 30 % صومالی ، 20 % پاکستانی نوجوانوں کو فارغ وقت میں والدین کی طرف سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی –
( سوال نمبر 3 )
شادی سے پہلے مخالف جنس یا کسی بھی جنس سے جنسی روابط رکھنا قطعی قبول نہیں – اس سوال کے جواب میں 70 % پاکستانی ، 80 % صومالی نوجوانوں نے جواب دیا کہ شادی سے پہلے کسی بھی قسم کی جنسی روابط رکھنا ان کے والدین کو قطعی قبول نہیں –
(سوال نمبر 4 )
ہم جنسی پرستی قابل قبول نہیں –
اس سوال کے جواب میں 60 % پاکستانی ، 70 % صومالی نوجوانوں نے جواب دیا کہ کہ ان کے اردگرد ماحول اور والدین کو قطعی قبول نہیں کہ ان کی اولاد ہم جنس پرست ہو –
پروگرام میں ایک پاکستان سے بیاہ کرکے آئی ہوئی خاتون کا انٹرویو پیش کیا گیا ، جس میں اس خاتون نے اپنی طلاق ہونے کے بعد نارویجین مختلف اداروں کی امداد کے بارے میں بتایا ، جو اس کو اس مشکل وقت میں ملی –
سابق وزیراعلی شہبازشریف کے مشیر سلیمان صوفی جو آج کل پاکستان میں خواتین تشدد روکنے کے سنٹر پر کام کررہے ہیں ، انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سنٹر کے تحت ہم عام لوگوں کو یہ آگاہی دے رہے ہیں ، کہ آپ اپنی اولاد جب وہ بالغ ہو جائے تو ان کو اپنے لائف پارٹنر چننے کی اجازت دین ، تاکہ مستقبل میں آپکی اولاد خوشحال زندگی گذار سکے –
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انہوں نے خواتین کا موٹر سائیکل چلانے کے پروجیکٹ پر کام کیا جس کی وجہ سے اب پاکستان میں خواتین آپ کو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نظر آئیگی –
نارویجین پولیس عہدیدار نینا بیرلو جو نارویجین حکومت کی طرف سے جبری شادی اور انسانی حقوق کے تحفظ پروجیکٹ کے تحت 2014 – 2017 تک پاکستان میں رہی، انہوں نے اپنے پاکستان میں گذارئے گئے 3 سال کے تجربے کا احوال پیش کیا –
نارویجن بڑے روزنامے آفتن پوستن کی کالم نگار اولگا سوتکے نے سویڈن میں عزت کے نام پر 2002 میں قتل ہونے والی ایک کردش لڑکی کا واقعہ پیش کیا ، اس کردش لڑکی کو اس کے باپ نے اس کی مرضی کی شادی پر قتل کر دیا تھا ، اولگا نے اس طرح کے دوسرے واقعات پر روشنی ڈالی ، اس بات پر زور دیا کہ ایسے سمینار ہونے چاہئیے ، ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ ذرائع ابلاغ کو ایسے مسائل پر زیادہ سے زیادہ لکھنا چائیے ، تاکہ حکومتی اداروں پر رائے عامہ کا دباؤ رہے –
نارویجین کرائسس سنٹر کی نمائندے کرسٹین نے سمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرائسس سنٹر میں زیادہ کیس نارویجین شہریوں کے ہیں ، دوسرے نمبر پر نارویجین پاکستانی شہری کرائسس سنٹر میں مدد لینے آتے ہیں-
انٹرٹینمنٹ شروع ہونے سے پہلے مقررین اور حاضرین کے درمیان سوال ، جواب کا سیشن ہوا –
سمینار کے آخر میں گلوکار راکی میر اور انڈین ردہم گروپ نے موسیقی ، ڈانس پیش کیا ، جس میں معاشرتی، سماجی مسائل کو موضوع بنایا گیا ، سمینار میں 100 سے اوپر حاضرین نے شرکت کی –