(تحریر، محمد طارق )
مارکیٹ میں کس طرح بڑی بڑی کمپنیاں نت نئے طریقے اور جدید علوم کو استعمال کرکے اپنی پروڈکٹ فروخت کرتی ہیں –
دنیا میں کسی بھی کام کی کامیابی ایک پختہ حکمت عملی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس اصطلاح کا استعمال عموماً دنیا کے انتہائی نازک معاملات میں ہوا کرتا ہے مثلاً جنگ، کھیل،سیاست،مہم جوئی وغیرہ ۔ دنیا میں تمام معاملات پر فتح پانے اور کامرانی سے ہمکنار ہونے کے پیچھے حکمت عملی ہی کار فرما ہوتی ہے ۔
معاشیات کے طالب علم اور ماہرین GAME THEORYسے اچھی طرح واقف ہیں جس میں فریقین اپنے مفادات کے حصول اور اپنے مخالف کے نقصان کے لئے ایک کے بعد دوسرا پینترہ بدلتے ہیں تاکہ اپنی بقا اور سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے ۔
گیم تھیوری کے مطابق ’’ایسی صورتحال سے نمٹنا یا نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا جس میں مختلف لوگ اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں ، اور فیصلے ایسا ہو جو اس کے لیے بہترین ہو، خواہ اس سے کسی دوسرے کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یا یوں کہیں ایسا فیصلہ جوکسی بھی صورتحال میں کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے قطع نظر اِس سے کہ دوسرے لوگ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔
عام شہری اپنی زندگی میں ، سیاست دان سیاست میں ، حکمران اپنی حکومت میں ، کمپنیاں اپنی مارکیٹ میں،
استاد اپنے کلاس روم میں،
یہ سارے لوگ اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے اور اپنا کم سے کم نقصان کرنے کے لیے مختلف صورت حال میں مختلف فیصلے کرتے ہیں ، ان فیصلوں تک پہنچنے کے لیے ان سب کو مختلف حکمت عملی اپنانا پڑتی ہے –
سماجیات ، معاشیات ، قانون کے ماہرین نے کسی بھی انسان ، کمپنی کو مطلوبہ نتائج، حاصل کرنے کے لیے ، جو حکمت عملی اپنانا پڑے گی ، اس کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں ایک مختصر مثال سے پیش کیا ، تاکہ عوام الناس آسانی سے سمجھ سکے ، اس مثال کو انہوں نے
قیدی کی پسوڑی کہا —
قیدی کی پسوڑی یعنی
The prisoner,s dilemma
کچھ اس طرح ہے –
کسی شہر میں رات کو ایک مارکیٹ میں چوری ہوجاتی ہے ، شہر کی پولیس اس سلسلے میں 2 آدمیوں A , B کو پکڑ لیتی ہے ، دونوں آدمیوں سے الگ الگ چوری کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ، مزے کی بات پولیس تفتیش کے دوران دونوں آدمی آپس میں بات چیت نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی قسم کی معلومات کا تبادلہ خیال کر سکتے ہیں –
پولیس قیدی A سے کہتی ہے ، کہ اگر تم نے سچ بتایا کہ چوری تم نے نہیں کی، تو تمہیں بری کر دیا جائے گا ، جبکہ تمارے ساتھی قیدی B کو عمر قید کی سزا ہوجائے گی ، یہی سوال وہ قیدی B. سے کرتے ہیں کہ تم نے سچ بتا دیا تو تمہیں بری کر دیا جائے گا ، جبکہ تمھارے ساتھی قیدی A کو عمر قید کی سزا ہوجائے گی ، یعنی کے اگر کسی ایک صورت میں اگر ایک قیدی A یا B خاموش رہا ، تو دوسری طرف قیدی A یا B نے بتا دیا کہ چوری کس نے کی ہے تو ایک قیدی بری ہو جائے ، جبکہ دوسرے کو عمر قید ہوگی –
دوسری صورت میں اگر دونوں قیدی A اور B پولیس کو بتا دیتے ہیں کہ چوری کس نے کی ہے ، تو پھر دونوں کے اعتراف جرم پر دونوں قیدیوں کو 10 ، 10 سال کی قید کی سزا ہوگی –
تیسری صورت میں اگر دونوں قیدی A , B پولیس کو کوئی جواب نہیں دیتے ، تو پھر عدالت شواہد کے نامکمل ہونے پر دونوں قیدیوں کو شک کا فائدہ دے کر صرف 1، 1 سال کی سزا دے گی –
اب یہاں پر انسانی جبلت انسان کے اپنے مفادات ،اور متوقع مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے وہ راستہ اپنائے گی ، وہ حکمت عملی اپنائے گی جس سے اس کو ذاتی طور پر زیادہ فائدہ ہو ، یعنی دونوں قیدی A, B کبھی بھی سزایافتہ بننا پسند نہیں کریں گے ، عدالت سے اپنے آپ کو بری کرنے کے لیے عدالت کو بتائیں گے کہ چوری کس نے کی ، جس سے عدالت کے پاس مکمل ثبوت آ جائیں گے ، جس سے عدالت دونوں قیدیوں A, B کو 10، 10 سال قید کی سزا دے دے گی –
یہی وہ پسوڑی ہے جس کو کمپنیاں ، سیاست دان یا عام انسان اپنے مفاداتی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتاہے ، مطلوبہ نتائج تک پہنچنے کے لیے اس بروقت اہم معلومات حاصل کرنا پڑتی ہیں ، ان معلومات کی وجہ سے اسے ہر وقت کسی بھی متوقع نتیجہ پر پہنچنے کے لیے اس مختلف حکمت عملی اپنانا پڑے گی ، یعنی کوئی ایک حکمت عملی واضح نہیں ، انسان ہمشیہ مخمصے میں رہ کر بہترین حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرتا ہے –