جناب سید فیاض حسین شاہ ایڈوکیٹ جو کافی عرصہ مانسہرہ شہر میں وکالت کرتے رہے، گذشتہ دنوں عارضہ سرطان کی وجہ سے مختصر علالت کے بعد دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے۔ انھوں نے انتہائی سخت حالات میں گاوں میں تعلیم حاصل کی۔ گاوں میں اس زمانے میں صرف ایک پرائمری سکول تھا۔ کوئی مڈل اور ہائی سکول نہیں تھا۔ انھوں نے گاوں میں ابتدائی تعلیم کے بعد ایک دور دراز علاقے کے ہائی سکول میں داخلہ لیا جہاں وہ روزانہ کئی کلومیٹرپیدل جاکر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس زمانے میں راقم بہت چھوٹا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ مرحوم سید فیاض شاہ صاحب اپنے بھانجے سید کفایت حسین شاہ(راقم کے بڑے بھائی) کے ہم جماعت تھے اور یہ دونوں سحر کے وقت اندھیرے میں گھر سے سکول کے لیے نکلتے تھے اور واپس شام کو اندھیرے میں گھر آتے تھے۔ یعنی پیدل راستہ دوتین گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ دوتین گھنٹے جانے اور دوتین گھنٹے واپس آنے کے لیے مصرف ہوتے تھے۔ انھوں نے انتہائی تکلیف دہ حالات میں ہائی سکول کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنی کوشش سے گریجویشن کرلی اور حتیٰ ایل ایل بی کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
وکالت سے قبل وہ تھوڑا عرصہ صحافت کے پیشے سے بھی منسلک رہے اور جب وکالت شروع کی تو مانسہرہ شہر میں اپنا چمبر کھولا۔ ہمارے علاقہ پیراں شریف کے مانسہرہ شہر میں واحد وکیل ہونے کی وجہ سے گاوں اور ارد گرد کے بہت سے لوگ ان سے آشنا تھے۔ اگرچہ ہمارے گاوں کے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان میں سے بہت سے وکیل بھی ہوں گے لیکن شاید وہ لاہور اور کراچی سمیت دوسرے شہروں میں جاکر آباد ہوگئے۔ مرحوم فیاض شاہ صاحب کے دل میں اپنے عزیز و اقارب اور اپنے علاقے کے لوگوں اور خصوصا مستحق افراد کے ساتھ بہت ہمدردی تھی۔ کئی لوگوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت سے لگایا جاسکتاہے۔ انھوں نے محنت اور کوشش سے معاشرے میں اپنا مقام بنایا اور ایسے لوگ دوسروں کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔
مرحوم راقم کے حقیقی ماموں ہونے کے علاوہ ایک مہربان دوست بھی تھے اور بڑے بھائیوں کی طرح شفیق بھی تھے۔ جب بھی مانسہرہ جانا ہوتا، وہ اپنے ہاں کھانے پر بلاتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کی غمی و خوشی میں ہمیشہ شریک رہتے تھے۔ حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ایک بار راقم کو ایک قریبی دوست کا مانسہرہ سے فون آیا کہ وہ اس وقت کسی مخالف فریق کی ناجائز شکایت کی وجہ سے پولیس چوکی پر ہیں اورانہیں قانونی مدد چاہیے۔ راقم نے اسلام آباد سے فوری طور پر مرحوم جناب سید فیاض شاہ ایڈوکیٹ سے مانسہرہ فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے اس شخص کی ضمانت کروائی اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی فیس کتنی ہے تو انھوں نے یہ کہہ کر فیس کی بات ٹال دی کہ چونکہ انھوں نے آپ کی وساطت سے میری قانونی مدد حاصل کی، اس لئے میں اس کیس کی فیس نہیں لوں گا۔
ایک اور شخص نے آج ہی ان کی وفات کے تین دن بعد اپنی اشک بار آنکھوں کے ساتھ فون پر مرحوم کی ہمدردانہ سوچ کا ایک قصہ سنایا۔ بقول اس شخص کے، وہ ایک دفعہ مرحوم سے ملنے ان دفتر گیا تو وہاں ایک خاتون کسی کیس کے سلسلے میں ان سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ وہ بہت نادار تھی، اس کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے نہیں تھے۔ اس کی حالت سے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید اس کے پاس دوبارہ شہر آنے کے پیسے بھی نہ ہوں۔ ایڈوکیٹ سید فیاض شاہ نے اس کی صورتحال بھانپ لی۔ انھوں نے اس سے کہاکہ میں آپ سے اس کیس کے پیسے نہیں لوں گا۔ جاتے ہوئے، انھوں نے اپنی جیب سے کچھ رقم نکال کر اس خاتون کو دی اور کہاکہ آپ بے فکر رہیں، میں آپ کا کیس لڑوں گا۔ جب وہ خاتوں واپس چلی گئی تو اس شخص نے فیاض شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ اس سے کیس کی فیس بھی نہیں لے رہے اور واپس جاتے ہوئے، آپ نے اسکی مالی مدد بھی کردی ہے، اگر آپ اس طرح کرتے رہے تو اپنا گزارہ کس طرح کریں گے۔ مرحوم نے جواب دیا کہ پیسے ہر جگہ سے نہیں لئے جاتے، کہیں پیسے دے بھی دینے چاہیں۔
قریبی عزیزوں کے بقول، جب وہ چند ہفتے قبل اس بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئے تو انھوں نے ڈاکٹروں سے کہاکہ علاج میں کوئی کمی نہ چھوڑیں، میری زندگی میرے بچوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ وہ بہت چھوٹے ہیں۔ واقعاً ان کے بچے بہت چھوٹے ہیں، سب سے بڑی کی عمر دس گیارہ سال ہوگی لیکن ان بھی اللہ وارث ہے۔ وہ اپنے والد کی شفقت سے تو محروم ہوگئے لیکن اللہ کرے، ان کا مستقبل روشن ہو۔ راقم کی جب مرحوم سے ان کی وفات سے ایک دن پہلے بات ہوئی تو وہ کہنے لگے، ڈاکٹروں کی پوری کوشش ہے اور علاج صحیح ہورہاہے، آگے پروردگار کی مرضی ہے۔ ان کی باتوں میں حوصلہ بہت زیادہ تھا۔ ویڈیو کال کی بدولت ان کا چہرہ واضح نظر آرہا ہے البتہ چہرے پر بیماری اور تکلیف کے آثار ضرور تھے۔ شاید خدا کی رضا اسی میں تھی کہ انہیں اپنے بچوں اور عزیزو اقارب اور دوستوں کو روتا چھوڑ کر اس دنیا سے جانا پڑا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جواررحمت جگہ دے۔ امین