دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان جب بھی کسی قسم کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں زیادہ دفعہ ناروے پوائنٹ سکورنگ میں پہلے نمبر آتا ہے، یہ تقابلی جائزہ چاہے ملکوں کے درمیان—
تعلیم نظام کے بارے میں ہو
صحت کی سہولیات کے بارے میں ہو،
ہر شہری کے لیے برابری کا قانون ہو،
انسانی حقوق کی بات ہو،
معاشی استحکام ہو،
معاشی مساوات ہو،
ملکی ذخائر کی آمدن کی تقسیم ہو،
ناروے کا شماریاتی انڈکس عام طور پر پر پہلے نمبر پر ہوتا ہے ،
حالانکہ دنیا میں کہیں ایسے ممالک ہیں جن کی آبادی ناروے سے کم ہے ، کہیں ممالک ایسے ہیں جن کے صرف تیل، گیس کے ذخائر ناروے کے تیل ، گیس کے ذخائر سے ڈبل ہیں ، لیکن ان ممالک کی 70 % آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے ، جبکہ ناروے
کا ہر شہر ، گاوں، زندگی کی ہر سہولت حاصل کیے ہوئے ہیں –
اب قارئین دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
یہ ایسا اس لیے ہے کہ جس پر دنیا کے بڑے بڑے معیشت دان، سیاست و عمرانیات کے محققین متفق ہیں کہ ناروے میں ایک ایسا جمہوری ، گورننگ سسٹم ہے جس میں نچلی سطح سے لیکر اوپر قومی اسمبلی تک ہر شہری اجتماعی فیصلہ سازی میں شریک رہتا ہے ، حکومتی و معاشرتی نظام بھی اس دلچسپ طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے کہ عام شہری بھی اجتماعی معاملات میں خود بخود متحرک رہنے کی کوشش کرتا ہے ، اور اپنی تجاویز ، مشاورت سے قومی اجتماعی معاملات کو بہتر کرنے میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے –
عام لوگوں کی اجتماعی فیصلہ سازی میں بھرپور شرکت کی جھلک آپ آجکل نارویجین سیاسی جماعت کرسچین پیپلزپارٹی کی اندورن خانہ جاری نظریاتی ، انتظامی ، معاشی، سیاسی امور پر منقسم بحث کو پرکھ کر سمجھ سکتے ہیں ، کہ کس طرح ایک ترقی یافتہ ملک کی ایک سیاسی جماعت اپنے ممبران کو کھلم کھلا بات کرنے کی ، فیصلہ کرنے کی اجازت دیتی ہے ، تاکہ ممبران ایک کھلی تعمیری بحث کے بعد پارٹی کی مستقبل کی سیاست ، سیاسی نظریات کی صحیح سمت متعین کرسکیں –
کرسچین پیپلزپارٹی کنزرویٹو اتحاد کی ناروے کی موجودہ مخلوط حکومت میں ایک اہم اتحادی ہے ، اگر کرسچین پارٹی کے 8 قومی اسمبلی کے ممبران آج کنزرویٹو اتحاد کی حمایت ختم کر دیں تو آج ہی اتحاد کی حکومت ختم ہوسکتی ہے –
نارویجین کرسچین پیپلزپارٹی کی اندورن خانہ جاری نظریاتی تقسیم کی بات اس وقت شروع ہوئی ، جب منتخب پارٹی لیڈر اور ممبر قومی اسمبلی کنھویت آریلد ہارائیدے نے چند ہفتے پہلے ایک پارٹی اجلاس میں اس نقطے کو اٹھایا کہ اب کرسچین پیپلزپارٹی کو بائیں بازو کے اتحاد سوشل ڈیموکریٹ کی حمایت کرنا چاہیے ، کیونکہ سوشل ڈیموکریٹک اتحاد کرسچین پارٹی کے معاشی و سیاسی نظریات کے زیادہ قریب ہے ، اس اتحاد میں شامل ہونے سے ہماری پارٹی کے منشور پر زیادہ عمل درآمد ہوگا ، جبکہ موجودہ کنزرویٹو اتحاد میں شریک رہنے سے ہمیں ہر وقت نارویجین دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی ایف آر پی سے مختلف ایشوز پر سخت اختلاف رہتا ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات ہمیں حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنے میں اپنے بنیادی پارٹی نظریات پر سمجوتھ کرنا پڑتا ہے , اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ کرسچین پارٹی بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک اتحاد سے ملے ، کرسچین پارٹی لیڈر کی اس نئے نقطے پر پارٹی کے اندر زبردست بحث شروع ہوگئ ، جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر 3 مختلف قسم کے گروپس عام پبلک میں ، نیشنل میڈیا پر ،پارٹی فورم پر کہ دائیں بازو، یا بائیں بازو سے اتحاد کرنے کے لیے کھل کر دلائل دے رہے ہیں ، کرسچین پارٹی کے اندر کی اس تقسیم ، پارٹی لیڈر کی نئی تجاویز کی سر عام مخالفت پر کسی بھی پارٹی رکن کو پارٹی لیڈرشپ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی گئی ، نہ ہی کسی پارٹی کارکن کے جمہوری حق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ، بلکہ پارٹی لیڈر شپ سے عام کارکن تک سب متفق ہیں کہ ہر رکن کو پارٹی کے اندر کسی بھی قسم کا سیاسی ، انتظامی موقف رکھنے کی مکمل اجازت ہے ، جبکہ پارٹی کی سمت کا تعین پارٹی کے نیشنل لیول پر ہونے والے پارٹی اجلاس میں بذریعہ ووٹ کیا جائے گا ، اس لیے کرسچین پیپلزپارٹی میں پارٹی لیڈر کا سیاسی بیانیہ اہمیت نہیں رکھتا ، بلکہ پارٹی کے اجلاس میں ممبران کی متفقہ رائے سے کئے ہوئے فیصلے پارٹی کی سیاسی و انتظامی سمت متعین کریں گے ،
اس سارے پراسیس سے یہ بات ثابت ہوگئ کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں اجتماعی فیصلہ سازی ، اجتماعی دانش کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے ، جبکہ دوسری طرف قومی معاملات میں صرف مخصوص طبقے کے بیانیے و فیصلے ، جمہوری لیڈروں کے آمرانہ فیصلے ملکوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں –