پنجاب کے سابق وزیراعلی ، مسلم لیگ ن کے صدر اور موجودہ اپوزیشن لیڈر کو پاکستان کی احتساب بیورو نے دس روزہ ریمانڈ پر جیل بند کر دیا ہے ، احتساب بیورو کے مطابق شہبازشریف نے اپنے دور حکومت میں اپنی انتظامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے سرکاری وسائل ، عوام کے ٹیکسوں سے اکھٹے کیے گئے خزانے کو مختلف سیکٹرز میں سرکاری ادارے ہونے کے باوجود، بہت ساری نئی نجی کمپنیاں بنا ڈالی، پھر انہی نجی کمپنیوں کو سرکاری فنڈز تقسیم کر دیئے ، ان نجی کمپنیوں کے اوپر ڈمی بورڈز، ڈمی ڈائریکٹرز تعنیات کردئیے، اصل فیصلے کے اختیارات اپنے پاس رکھ کر عوامی بہبود کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کو خرد برد کیا-
شہباز شریف کے دور میں پنجاب حکومت میں چلنے والے عوامی بہبود کے لئے بنائے گئے پروجیکٹس جن کو نجی کمپنیوں کے حوالے کیا گیا تھا، اس وقت شہبازشریف حکومت کے نمائندے عوام میں مختلف فورمز پر ان پروجیکٹس کو پاکستان ، صوبے کی ترقی میں ایک بڑا قدم قرار دیتے تھے ، کہ کس طرح شہبازشریف نے عوامی بہبود کے کاموں کو بیوروکریسی ، سرخ فتیے سے جان چھڑا کر ، پروفیشنل لوگوں کے ہاں سپرد کیا ہے ، تاکہ عام عوام کو بنیادی سہولیات جلد میسر آسکے ، لیکن عوامی پروجیکٹس نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے کے 1 ، 2 سال بعد ہی شہبازشریف دور حکومت میں ہی میڈیا ، عوام میں ان پروجیکٹس پر فنڈز مس منیجمنٹ اور کرپشن کے الزامات آنا شروع ہو گئے ، انہی الزامات کے تحت قومی ، صوبائی احتساب بیورو نے پہلے مرحلے میں پنجاب صاف پانی کمپنی ، آشیانہ ہاوسنگ اسکیم ، پنجاب ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی تحقیقات شروع کردی ، جوں جوں احتساب بیورو تحقیق کرتی گئ تو تو فنڈز کی خرد برد کی تفصیلات تحقیقی کمیٹی کو حاصل ہونا شروع ہوگئی ، کہ کس طرح سابقہ حکومت کے سیاسی لیڈروں نے عوام کے کثیر سرمائے کو اپنے من پسند افراد کو اعلی پوسٹوں پر تعنیات کرکے ذاتی معاشی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی ، یہ وہ کام یا الزامات ہیں جن کی وجہ سے تجربہ کار سیاستدان کو اب عدالتوں میں پیش ہونا پڑ رہا ہے –
اب قارئین دیکھنا یہ ہے کہ شہبازشریف کے ذہن میں اپنے دور حکومت میں اس طرح کے آئیدز، اور پروگرام کیوں کر پیدا ہوئے کہ انہوں نے سرکاری ادارے موجود ہونے کے باوجود سرکاری و عوامی پروجیکٹس کو نجی کمپنیوں کے ہاں سپرد کردیے ، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ، تیسری دنیا کے سرمایہ دار طبقات جب سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو ان کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ذاتی معاشی مفادات کا فروغ ہوتا ہے، اس لیے ایسے سیاست دانوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بڑے پروجیکٹس لانچ کرنے کے فیصلے کے وقت فیصلہ سازی میں زیادہ لوگ کی شرکت کم ہو،یا فیصلے من پسند افراد کے ساتھ مل کر کئے جائیں –
پاکستان کا موجودہ آئین اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ پاکستانی منتخب نمائندے وزیر ، وزیراعظم ، وزیراعلی بن کر سیاہ سفید کے مالک بن بیٹھے اور بڑی بڑی عوامی نوعیت کے پروجیکٹس کو ہر سطح کی پارلیمان میں لائے بغیر شروع کر سکے ، یا سرکاری ادارے ہونے کے ساتھ ایک نیا متوازی انتظامی ڈھانچہ کھڑا کر دے –
بنیادی طور پر بڑی عوامی سروسز عوام کو بروقت مہیا کرنے کا شہبازشریف کا پرائیویٹ پبلک اشتراک آئیڈیا شاندار تھا ، کیونکہ اسی طرح کہ پرائویٹ پبلک اداروے ترقی یافتہ ممالک میں بڑے اچھے طریقے سے عوام کو بنیادی سروسز مہیا کر رہے ہیں ، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پرائیویٹ پبلک اشتراک شروع کرنے سے پہلے ملکی آئینی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں ، پبلک ادارے کو پرائیویٹ اشتراک میں لانے سے پہلے ان پبلک اداروں کو مکمل بااختیار کیا جاتاہے ، ان کی تکنیکی، علمی استعداد میں اضافہ کیا جاتاہے، ہر سطح پر ان کی فیصلہ سازی میں زیادہ سے زیادہ منتخب نمائندوں کو شامل کیا جاتا ہے ، سب سے اہم نقطہ جو کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ کسی بھی جگہ کی مقامی آبادی کے بنیادی مسائل اس آبادی کے منتخب نمائندے حل کریں گے ، جیسے مقامی آبادیوں میں صاف پانی دینا ، کوڑا کرکٹ سنبھالنا ، نئے گھر بنانا اس آبادی کی اپنی لوکل گورنمنٹ کے ڈومین میں ہوتا ہے کہ یہ سارے کام وہ کریں ، نہ کہ 500 میل دورچند لوگ مقامی آبادی کی ضروریات کو سمجھے بغیر بالا ہی بالا فیصلے کریں ، اور ان کے نام پر مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کر دے-
سابق وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کی قومی احتساب بیورو کے ہاں گرفتاری اور ریمانڈ کی کہانی کا اصل محرک بھی یہی ہے کہ شہبازشریف نے پنجاب میں اپنے 10 سالہ دورحکومت میں بلدیاتی اداروں کو فنکشنل ہی نہیں کیا، صوبے پنجاب کی ساری معاشی، انتظامی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھ لی ، جس کی وجہ سے سرکاری فنڈز صحیح طرح سے مقامی آبادیوں ، یونین کونسلوں تک نہ پہنچ سکے، ان فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے پنجاب کے شہری بنیادی سہولیات صاف پانی ، صاف ستھرا ماحول اور اچھے مکانات حاصل کرنے میں ناکام رہے ، انہی بنیادی مسائل کو دیکھتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے چند ہم خیالوں کے مشورے کے ساتھ سنڑل لیول پر صاف پانی ، شہروں سے گندگی دور کرنے ، اور عام لوگوں کے لیے سستے مکان تعمیر کرنے کے لیے سینکڑوں نجی کمپنیاں بنائی ، یہ کمپنیاں بنانے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ سرکاری فنڈز ان کمپنیوں کو دیئے جائیں گے،اور یہ کمپنیاں پورے صوبے میں کام کریں گی، مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اس سارے پراسیس میں منتخب صوبائی اسمبلی کو بھی آن بورڈ نہیں لیا گیا ، حکومتی صوبائی اسمبلی ممبران بھی اپنے بادشاہ لیڈر کے سامنے ان کے اس عمل پر آواز اٹھانے سے کتراتے رہیں ، کہ یہ کام وزیراعلی کا نہیں بلکہ منتخب بلدیاتی اداروں کا ہے ، اس لیے نتیجہ بالآخر پھر وہی نکلا جو عمومی طور پر تیسری دنیا میں ایسے پروجیکٹس کے ساتھ نکلتا ہے ، کہ کوئی پروجیکٹس مکمل نہیں ہوا ، سرکاری فنڈز خرد برد ہو ئے یا کرپشن کی نظر ہو گئے ، جب کہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہے –
عوامی بنیادی ضروریات کو مقامی بلدیاتی اداروں کے ذ ریعے حل کرنے کے بجائے سابقہ حکمران نے مختلف قسم کی لاتعداد نجی کمپنیاں کھڑی کر کے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ، لیکن گھمبیر ، لاتعداد مسائل ہونے کے ساتھ، ساری فیصلہ سازی کو مکمل اجاراداری سے اپنے ہاتھ رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شروع کیا گیا پروجیکٹس مکمل نہ ہوسکا ، اگر کوئی پروجیکٹ مکمل ہوا بھی تو اس میں اتنی زیادہ مالی بے قاعدگیاں پائی گئ کہ آخرکار احتساب بیورو کو اس پروجیکٹ کو چیک کرنا پڑا ، احتساب بیورو کی چیکنگ، تحقیق کے دوران معلوم ہونا شروع ہوا کہ اجتماعی عوامی مسائل کو سرکاری ادارے سے حل کرنے کے بجائے ان اجتماعی کاموں کو نجی کمپنیوں کے ذریعے حل کرانا کتنا بڑا فراڈ ہے –