تحریر: قیصر سعید
ناروے میں اس وقت ہزاروں پاکستانی آباد ہیں۔ ان پاکستانی نژاد نارویجن باشندوں کی سیاسی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں سارا سال ہی جاری رہتی ہیں۔
ناروے شمالی یورپ کے سردترین ممالک میں شامل ہے۔ یہاں سرد موسم بہت لمبا ہوتا ہے۔ سترہ مئی ناروے کا یوم آزادی ہے۔ ایک طرف موسم میں تبدیلی لاتے ہوئے سورج کی گرمی ابتائی مرحلوں میں داخل ہورہی ہوتی ہے اور دوسری طرف نارویجن باشندے یوم آزادی کے حوالے سے متعدد پروگرامز ترتیب دے رہے ہوتے ہیں۔ سترہ مئی کی عوامی پریڈ ماحول کو گرما دیتی ہیں یہ ایک ایسی تقریب ہوتی ہے جس میں ہرخاص و عام دلچسپی لیتا ہے۔
کہیں ثقافتی پروگرامز ہوتے ہیں اور کہیں رنگ برنگے لباس میں ملبوس لوگ نظر آتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اس موسم کے دوران پھولوں پر بھی بہارنظر آتی ہے۔ لوگ باغوں اور باغیچوں کا رخ کرتے ہیں۔ چہل پہل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سمندر کی لہروں پر سفرمیں بھی تیزی نظرآتی ہے۔ کشتی رانی اور مچھلی کا شکارعام ہوتا ہے۔ لوگ جنگل کی سیرکرتے ہیں اور پارکوں میں ابتدائی ورزش کرتے بڑے اور بچے اور خواتین نظر آرہی ہوتی ہیں۔
مئی کے بعد موسم گرما یعنی پہلے جون اور پھر جولائی کے ایام بھی لوگوں کی رنگا رنگ مصروفیات کا سماں سبب بنتے ہیں۔
خاص طور پر جولائی کا مہینہ تو چونکہ یورپ میں چھٹیوں کا مہینہ کہلاتا ہے، اسی لیے اس ماہ کے دوران یورپ کے سیاحتی مقامات پر سیاح ٹولیوں کی شکل میں نظر آتے ہیں جو ایک دلفریب نظارہ پیش کرتا ہے۔ لوگوں کے چہروں پر خوبصورت مسکراہٹیں نظرآتی ہیں۔
اور پھر اگست توایسا میہنہ ہے جو ناروے میں پاکستانیوں کی خوشیوں کو دوبالاکردیتاہے۔ اوسلو میں یوم آزادی پاکستان کے حوالے سے شاندار تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ بہت سی شخصیات پاکستان سے بطور مہمان خصوصی ناروے تشریف لاتی ہیں اوران تقریبات کی رونق بنتی ہیں۔
پاکستان یونین ناروے، پاکستان ویلفیئر سوسائٹی، ینگ پاکستانی سوسائٹی، ملٹی کلچرل سنٹر میں پاکستانیوں کی تنظیم اور نارویجن پاکستان کی دیگر مرکزی تنظیمیں اپنے اپنے بینرز تلے پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کے تاریخی پس اور پاکستان کی ثقافت کے حوالے سے پروگرامز منعقد کرتی ہیں۔
ان پروگراموں کے علاوہ اگست میں ہرسال اوسلو کے مرکز میں سمندر کنارے ایک بین الاقوامی میلہ بھی سجتا ہے جس میں پاکستانی ثقافت کے رنگ بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس تین روزہ میلے میں پاکستان اور دیگر ممالک کے آرٹسٹوں کی شرکت اور خصوصاً اس میلے کے دوران رنگ برنگی پھول پتیوں سے مزئین پاکستانی ٹرک نمایاں طور پر میلے کے شرکا کی دلچسپی کا باعث ہوتاہے۔
دنیا کی ہرقوم اورنسل سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ مقامی نارویجن باشندے اور دیگر ممالک سے بھی مرد و زن اور بچے اس میلے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
اس بار میلے میں تو استاد رفاقت علی خاں اور فیض علی فیض قوال نے اپنے فن کا جادو جگا کر پاکستانی ثقافت کو اجاگر کیا جبکہ پاکستان یونین ناروے کے پروگرام میں پاکستان کی نامور گلوکارہ شازیہ منظور نے اپنی آواز کا لوہا منوایا۔
اس سال جولائی اور اگست کے دوران نارویجن پاکستانیوں میں پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے بھی بحث و مباحثہ جاری رہا۔ یہاں مختلف پاکستانی سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگوں نے اپنی اپنی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے حق میں پروگرامز منعقد کئے۔
اگست کے بعد ستمبر کا مہینہ ہے جو مساجد میں رونق کا مہینہ رہا۔ لوگ حج سے واپس آئے اور ان کے لیے مساجد میں پروگرامز منعقد ہوئے۔
ستمبر میں نارویجن پاکستانیوں کا کرکٹ بھی متحرک رہا۔ نارویجین پریمیئر لیگ کرکٹ کے 17 راونڈ میں سنسن کرکٹ کلب نے سٹار کرکٹ کلب کو 86 رنز سے شکست دے کر نارویجین پریمیئر کرکٹ لیگ کا چمپیئن شپ حاصل کرلی۔
ناروے کے پاکستانیوں میں ہرقسم کے کردار شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سماجی، مذہبی، سیاسی اور ثقافتی خدمات میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں جو اپنی کاروباری مصروفیات کے باوجود اپنا قیمی وقت ان سرگرمیوں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔
ان میں کچھ شخصیات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ ان میں مشتاق گوندل، ریاض شیخ، چوہدری سرور، صدیق دھکڑ، فیصل علی، رانا اسلم شامل ہیں۔
یہاں مسجد مرکزی جماعت اہلسنت اوسلو کے کارکنوں کی خدمات کا ذکر نہ کرنا بھی انکے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ علاوہ ازیں، سماجی نیٹ ورک کے طیب چوہدری بھی سماجی شعبے میں آگے آگے رہتے ہیں۔
پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال اور یونین کے سیکرٹری اطلاعات ملک پرویز مہر بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کمیونٹی کے کاموں میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
یہاں ایک خاتون سفارتکار کا ذکر بھی ضروری ہے، یعنی ناروے سے سبکدوش ہونے والی پاکستان کی سفیر محترمہ رفعت مسعود بھی اس سال جولائی تک اپنا بھرپور کردار ادا کرکے رخصت ہوگئیں۔ وہ جاتے جاتے اوسلو میں چودہ اگست جشن آزادی پاکستان کے لیے دوسرا مشترکہ پروگرام طے کرکے چلی گئیں۔
یہ بات بھی گوش گزار کرنی ضروری ہے کہ ملٹی کلچرل سنٹر اوسلو میں بھی متعدد پروگرامز کا انعقاد ہوتا رہتاہے جہاں سیاسی، ثقافت، سماجی شخصیات اور ماہرین قانون و طب آتے رہتے ہیں اور اپنی مفید آرا اور مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ ان پروگراموں کے انعقاد کے سلسلے میں چوہدری زاہد نذیر، طارق بٹ، پرنس ملک عبدالحمید، بشارت بٹ، راناصدیق اور دیگر دوست راقم کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
چوہدری غصنفر ڈینی جو بزرگوں کو جسمانی طور پرمتحرک کرنے کی آگاہی مہم کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، نئی نسل کے لیے بھی مشعل راہ ہیں۔ ورزش کرنی ہو تو کوئی ان سے سیکھے۔ وہ کبڈی اور گھڑ سوای وغیرہ کے بھی ماہر ہیں اورسیاسی طور پر بھی ایک فعال شخصیت ہیں۔
اوسلو کے سماجی شخصیت نذیر خالد بٹ بھی ہمیشہ فعال رہتے ہیں اور ہرجگہ کھاریاں ویلفیئرسوسائٹی کا پرچم اٹھائے ہوئے اپنے منفرد لباس میں نظر آتے ہیں۔
ایک محاذ پر نصراللہ قریشی بھی نمایاں ہوتے ہیں، وہ ہے، فلمی دنیا کا شعبہ۔ وہ ہرسال اوسلو میں ایک فلمی میلہ سجاتے ہیں۔
اوسلو ایک ایسا شہر ہے، جہاں ہر پاکستانی اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتاہے۔
قیادت میگزین کے چیف ایڈیٹر چوہدری شریف گوندل بھی اپنا ڈیرہ جمائے رکھتے ہیں اور ان کی گفتگو سے ہمیشہ پاکستان کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔
کچھ سیاسی نمائندوں کی بات کی جائے جو نارویجن پارلیمنٹ میں اپنی اپنی پارٹیوں کا سیاسی ایجنڈا رکھتے ہیں یعنی پاکستانی نژاد اراکین قومی پارلمان ناروے مدثر کپور اور عابد قیوم راجہ کی سرگرمیوں کی خبریں بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔