(تحریر ، محمد طارق )
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی، بے روزگاری، غربت کی وجہ سے عام پاکستانیوں کو اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں کو بہتر کرنے کے لیے مجبورا دوسرے ممالک میں ہجرت کرنا پڑھتی ہے ، سرکاری و غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1 کروڑ کے قریب پاکستانی دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہیں ، جس میں 60 – 65 % کے قریب عرب ممالک میں ، بقیہ 40 % امریکہ ، یورپ اور مشرق بعید میں رہتے ہیں ،
ان 1 کروڑ پاکستانیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 30 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے ، اورسیز پاکستانی نہ صرف پاکستان میں سرمایہ ٹرانسفر کرتے ہیں ، بلکہ دوسرے ممالک سے حاصل کے ہوئے تجربے ، علم، ٹیکنالوجی، نئے آیئڈز کو بھی پاکستان میں منتقل کر رہے ہوتے ہیں ، جس سے پاکستان کے معاشرے ، پاکستان میں کاروبار کو بھی مسلسل فائدہ ہورہا ہوتا ہے ، اس کے ساتھ 70 % اورسیزپاکستانی پاکستان کی سیاست ، پا کستان کی حکومتوں پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں ، بلکہ اپنے اپنے سیاسی نظریے ، علاقائی تعلقات سے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں میں نہ صرف پاکستان میں ، بلکہ بیرون ممالک میں بھرپور حصہ لیتے ہیں ، اورسیز پاکستانیوں کی مادر وطن سے محبت ، پاکستان کے حالات میں دلچسپی سے پاکستان میں موجود سیاست دان ان اورسیز پاکستانیوں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، اور سیز پاکستانیوں کی وساطت سے ان کے عزیز و اقارب ، خاندان سے پاکستان میں اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرتے ہیں، ووٹ لینے کے ساتھ ساتھ اور سیز پاکستانیوں سے مختلف اوقات ، مختلف مخصوص حالات میں ان سے سرمایہ اور فنڈز اکٹھے کرتے ہیں ، یہ فنڈز ، چندے پاکستان میں —
کبھی ہسپتال و سکول بنانے،
کبھی سیلاب و زلزلے کے متاثرین کے لیے ،
کبھی قرض اتاروں ملک سنواروں کی مد میں ،
تو کبھی جیسے اب پاکستان میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ڈیم کے لیے اورسیز پاکستانیوں سے فنڈز حاصل کیے جا تے ہیں،
اورسیز پاکستانی پاکستان کے ہر اجتماعی مسلئے پر ، ہر مشکل وقت میں اپنے ہم وطنوں کی ہر طرح کی مدد ، سپورٹ کرتے ہیں ، اجتماعی امداد کے علاوہ اور سیز پاکستانی اپنے خاندان ، گھر اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی مسلسل ماہنامہ مدد کررہے ہوتے ہیں ، یہ ساری چیزیں کرنے کے بعد بھی اور سیز پاکستانی اپنے خاندان، سیاست دانوں اور حکومت کے منفی رویے ، اور بے اعتنائی کا شکار رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اور سیز پاکستانیوں کی بیرون ممالک میں پروان چڑھنے والی نسل پاکستانی معاشرے، پاکستان سے لاتعلق ہونا شروع ہوگئی ہے ، اس لاتعلقی سے مستقبل میں پاکستان پر بڑے منفی اثرات مرتب ہونگے ، سب سے زیادہ اثر پاکستان کے زرمبادلہ پر پڑے گا، جس زرمبادلہ کی پاکستان اور حکومت پاکستان کو اشد ضرورت ہے ، دوسرے نمبر پر جب خاص طور پر یورپ ، امریکہ میں اورسیزپاکستانیوں کی دوسری نسل پاکستان نہیں جائے گی ، اس سے پاکستان میں نئے آیئڈز ، نئی سوچ ، نئی ٹیکنالوجی اور نیا علم پاکستان میں منتقل نہیں ہوگا ، جب پاکستان کی صنعت میں نت نئے آیئڈز نہیں آئیں گے تو پھر پاکستانی صنعت دوسرے ممالک کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہو جائیگی ، جس سے پاکستان میں غربت اور بے روزگاری میں اضافے ھوگا ،
ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت ضروری ہے کہ اورسیز پاکستانیوں کو حکومت پاکستان نہ صرف پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کریں ، بلکہ اورسیز پاکستانیوں کو مختلف سطح پر حکومتی فیصلہ سازی میں بھی شرکت کے آئینی مواقع فراہم کریں ، جیسے ابھی اورسیز پاکستانیوں کو جن کے پاس پاکستان کی شہریت ہے ان کو بیرون ممالک سے ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت فراہم کی گئ ہے ، اسی طرح جو اورسیزپاکستانی با امر مجبوری ( اکثر پاکستان اور دوسرے کئی ممالک میں دوہری شہریت کا کوئی معاہدہ نہیں ہے ) دوسرے ممالک کی شہریت رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی حکومت پاکستان نے ان کو POC کارڈ کی سہولت فراہم کی ہے ، POC کارڈ سے پاکستان میں آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی ، ساتھ ہی اس کارڈ پر اورسیز پاکستانی پاکستان میں زمین کا لین دین، بزنس اور بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں ، لیکن POC کارڈ سے نہ ووٹ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی کسی الیکشن میں بطور امیدوار کھڑے ہوسکتے ہیں ، POC کارڈ رکھنے والے اورسیز پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ہے ، یہ اورسیزپاکستانی بنسبت دوسرے اور سیز پاکستانیوں کے معاشی ، سماجی طور پر زیادہ خوشحال ہیں ، ان میں 98 % مغربی یورپ، امریکہ اور کنیڈا میں رہتے ہیں ، یہی پاکستانی پاکستان زیادہ آتے جاتے رہتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ ان اور سیز پاکستانیوں کو نچلی سطح کے سیاسی، انتظامی امور کی فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے ، اس لیے اورسیز پاکستانی موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ POC کارڈ رکھنے والے اورسیز پاکستانیوں کو کم از کم بلدیاتی اداروں میں ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق دیا جائے ،
یاد رکھے موجودہ وزیراعظم عمران خان سیکنڈی نیون ممالک کے گورننگ سسٹم کے متعلق اکثر بات کرتے ہیں، اور یہ بات زور و شور سے کرتے ہیں کہ کس طرح سیکنڈی نیون ممالک معاشرے کے ہر طبقے کو کس طرح حکومتی امور میں، اجتماعی فیصلہ سازی میں شریک کرتے ہیں ، سیکنڈی نیون ممالک کی جو سب سے اچھی بات ہے کہ ان ممالک نے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے تارکین وطن کو سیاسی ، انتظامی سرگرمیوں میں مکمل طور پر آزادی دی ہوئی ہے ، بلکہ نچلی سطح کے سرکاری و انتظامی باڈیز میں یعنی بلدیاتی اداروں میں تارکین وطن اپنے آبائی ملک کی شہریت ، پاسپورٹ رکھ کر سیکنڈ نیون ملکوں کے کسی بھی شہر، میونسپل کمیٹی کے کونسلر بن سکتے ہیں ، بلکہ کسی بھی شہر کا میئر بھی بن سکتے ہیں ، اس کا نام ہے سب کو ساتھ لے کر ملک و معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرنا ،
اس لیے بہت ضروری ہے کہ اورسیز پاکستانیوں کو POC کارڈ پر کم از کم بلدیاتی اداروں میں ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق دیا جائے ، تاکہ یہ پاکستانی پاکستان کے آئینی اداروں کا حصہ بن کر پاکستان کے حکومتی گورننگ سسٹم کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے –