سانحہ مستونگ انسانیت سوزبھی، سبق آموز بھی…… تحریر: سید سبطین شاہ

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں جمعہ کے روز ایک انتہائی دردناک اور انسانیت سوز واقعہ پیش آیا ہے جس میں قیمتی انسانوں جانوں کا ضیاع ہوا۔ یہ واقعہ ملک کی قومی سلامتی کے اداروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ اور بخصوص پاکستان کے ہمدردوں کے لیے سبق آموز بھی ہے۔ یہ واقعہ سبق آموز کیوں ہے، ذیل کی سطور میں تذکرہ کیا جائے گا۔ یہ وحشیانہ حملہ مستونگ سے بیس کلومیٹر دور شاہراہ کوئٹہ۔تافتان پر درینگڑھ کے مقام پر ایک انتخابی جلسے کے دوران پیش آیا۔ اس خودکش حملے میں ایک سو اٹھائیس افراد جانبحق اور ڈیرھ سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں میں نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنما نوابزادہ سراج رئیسانی بھی شامل ہیں جو صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ جونہی وہ سٹیج پر اپنے خطاب کے لیے آئے دھماکہ ہوگیا اور سارے کا سارا جلسہ درہم برہم اور لاشوں کے ڈیڑھ لگ گئے۔ سراج رئیسانی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستان کے حامی بلوچ رہنما تھے اور ان کے والد مرحوم نواب غوث بخش رئیسانی بلوچستان متحدہ محاذ کے سربراہ گورنر بلوچستان بھی رہ چکے ہیں۔ مقتول سراج رئیسانی کے بڑے بھائی اسلم رئیسانی جو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے مسخرہ پن کی وجہ سے مشہور ہیں۔

جیساکہ پہلی سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ سبق آموز بھی ہے۔ یہ ایک دردناک واقعہ سبق آموز  اس لیے ہے کیونکہ اسے سمجھنے کے لیے چند سال پیچھے جانا ہوگا۔ ہم ماضی قریب کے چند ایسے ہی دردناک واقعات سے سبق نہیں سیکھا۔ ان واقعات کا ازالہ کرنے اور متاثرین کا مداوا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ساڑھے چارسال پہلے کی بات ہے کہ اسی ضلع مستونگ کے اسی درینگڑھ کے مقام پربے بس، بے یارو مددگار و بے جرم وخطا معصوم زائرین کی بس پر خودکش حملے کے نتیجے میں 24 افراد جاں بحق اور 35 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ واقعے کے مطابق، تافتان سے زائرین کی دو بسیں کوئٹہ آرہی تھیں، مستونگ کے اسی علاقے درین گڑھ میں ایک بس خراب ہوگئی جبکہ دوسری تھوڑے آگے آگئی ۔ اس دوران کار میں سوار مبینہ خودکش حملہ آور نے کار زائرین کی بس سے ٹکرادی جس کے نتیجے میں زور دار دھماکا ہوا۔ دھماکے سے بس اور ساتھ آنے والی دو گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ حملے میں استعمال ہونے والی کار بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔

اس پہلے بھی اسی علاقے میں معصوم مسافروں پر کئی پے درپے حملے ہوئے۔ مثلاً چھ سال قبل اسی علاقے درینگڑھ میں زائرین کی ایک اور بس پر کاربم حملہ ہوتا ہے جس میں چارخواتین سمیت 20 افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوگئے۔ زائرین 3 بسوں پر مشتمل قافلے میں ایران جارہے تھے۔




یہ حملے مسلسل چند سالوں سے ہورہے تھے لیکن اس حوالے سے بے حسی تھی، ان انتہاپسند اور مذہبی دہشت گردوں کے خلاف کوئی بڑی اور سنجیدہ کاروائی سامنے نہیں آرہی تھی البتہ کچھ اکا دکا آپریشن ہوتے رہے اور خونخوار درندوں کو اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا رہا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے، بے گناہ مسافروں کو دشت ویراں میں مارا دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اس ساری صورتحال میں ریاست بے بس اور بے حس ہی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے، یہ حملہ آور آسیب اتنا طاقتور ہوگیا کہ آج ریاست کے ہمدردوں کو بھی نشانہ بنا لیا۔ یہاں ہم شاید بھول گئے کہ بسوں کے مسافر بھی ریاست کے ہمدرد تھے لیکن چونکہ وہ راہگیر پردیسی مسافر تھے، کسی نے ان کی پرواہ نہ کی اور تھوڑی بہت کاروائی کرکے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانوں تک واپس جانے دیا گیا۔ شاید اس وقت ریاست کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ ان حملوں کی وجہ سے اب بہت سے زائرین فضائی راستوں کے ذریعے ایران اور عراق زیارت کے لیے جاتے ہیں جو انہیں بہت ہی مہنگا پڑتا ہے۔ واقعاً ریاست کی عدم توجہ کی بنا پر اب ایران و عراق کی زیارت بہت ہی مہنگی پڑتی ہے البتہ کچھ غریب اور نادار لوگ ایسے بھی ہیں جو اب بھی خطرہ مول کر کوئٹہ سے تافتان کا خطرناک سفر اختیار کرکے زیارات کو جاتے ہیں۔

اب جو حملہ سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے پر ہوا ہے، اس نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ریاست کے درد اور دکھ کو آپ اس بات سے محسوس کرسکتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ دیگر اعلیٰ فوجی افسران کے ہمراہ نمازجنازہ میں شریک ہونے اور اس واقعےمیں جانبحق ہونے والوں کے لواحققین کا غم بانٹنے خود چل کر وہاں گئے ہیں۔ یادرکھیں، یہ ایک سبق آموز واقعہ ہے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ جنازوں میں شرکت کرکے صرف لوگوں کو دلاسہ دیا جائے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا؟ پاکستان کے ہمدردوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زیارات کرنے عراق و ایران جانے والے پاکستانی زائرین بھی پاکستان کے ہمدرد تھے۔ اس وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی شاید کوشش نہ کی گئی کہ انہیں کیوں نشانہ بنایاگیاتھا۔ اگر دہشت گردوں کے خلاف اسی وقت کاروائی ہوجاتی اور ان کا خاتمہ کردیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی اور قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں پاکستان کو زیادہ سے زیادہ ہمدردوں کی ضرورت ہے اور دشمن کا کام پاکستان کے ہمدردوں کے مابین خوف پیدا کرنا ہے۔ سراج رئیسانی جیسے پاکستان کے ہمدردوں کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف ہارڈ ایکشن کے ساتھ ساتھ سافٹ ایکشن کی بھی ضرورت ہے۔ مستونگ کے علاقے میں نہ صرف وسیع آپریشن کی ضرورت ہے بلکہ دہشت گردانہ سوچ کو بھی سافٹ ایکشن کے ذریعے روکا جائے۔ بلوچستان میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے رحجانات کے راستے میں حکمت عملی سے روکاوٹ ڈالی جائے۔ کہاگیا ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اور یہ بھی خبرہے کہ اس حملے میں ملوث دو سہولتکار بھی گرفتارہوئے ہیں۔ اگرچہ داعش ایک غیرملکی تنظیم ہیں لیکن اس کے آلہ کار اور سہولت کار مقامی ہیں۔ چند سال پہلے ایک سلامتی کے ایک ادارے کی رپورٹ آئی تھی کہ بلوچستان میں مقامی انتہاپسند تنظیم لشکرجھنگوی نے داعش کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ یہ دہشت گرد جو اس سے پہلے کوئٹہ کے ہزارہ شیعہ مسلمانوں کے قتل میں بھی ملوث رہے ہیں، زیادہ تر مستونگ کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔

اس تناظر میں مستونگ سے پچاس کلومیٹر دور واقع کوہ مہران بہت اہم ہے جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ اس سے پہلے سیکورٹی فورسز اس پہاڑی اور دشوار گزار علاقے میں کئی آپریشن بھی کرچکی ہیں۔ ایک مغوی چینی جوڑے کی بازیابی کے لیے بھی اس علاقے میں آپریشن کیا جاچکاہے۔ ان حملہ آوروں نے اپنی پناہ کے لیے مستونگ میں اسپلنجی اور مراو کے پہاڑی علاقے میں غار بھی بنا رکھے ہیں۔ اگر ریاست بروقت فیصلے کرتی اور ان غریب بس مسافروں کو ان درندوں کا شکار ہونے سے روک لیتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب بھی وقت ہے کہ بھرپور کاروائی کرکے بلوچستان کے ان متاثرہ علاقوں کو دہشت گردوں سے خالی کرلیا جائے اور اس صوبے میں دہشت گردوں کے لیے ہمدردانہ سوچ ختم کرنے کے لیے وسیع البنیاد اقدامات کئے جائیں۔ ان اقدامات میں عسکری کاروائیوں کے ساتھ سستے انصاف کی فراہمی، مذہبی ہم آہنگی، قومی وحدت، مفت بنیادی تعلیم، صحت سمیت بنیادی سہولت کی فراہمی اور غربت کا خاتمہ جیسے منصوبے بھی شامل ہونے چاہیں۔

نوٹ: مضمون نویس سینئرپاکستانی صحافی ہیں جو آج کل یونیورسٹی کی سطح پر انتہاپسندی اور قومی سلامتی پر تحقیق کررہے ہیں۔

Recommended For You

Leave a Comment