ممکنہ خفیہ ڈیل: نوازشریف اور ن لیگ کا مستقبل ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تحریر: سید سبطین شاہ

پاکستان کے معصوم لوگوں کو اس خوش فہمی میں مبتلا کیا جارہاہے کہ ملک کا چیف جسٹس اور دوسرے جج صاحبان ان کے مفاد میں کام کررہے ہیں اور آئندہ آنے والے وقت میں ملک میں ان ججوں کی بدولت ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

یہ صرف بناوٹی باتیں ہیں۔ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں کیونکہ یہ جج ایک دم آکر نازل نہیں ہوئے بلکہ ایک لمبے عرصے سے کام کررہے ہیں اور اب انھوں نے فیصلے اس لئے نوازشریف اور ان کے قریبی افراد کے خلاف کئے، کیونکہ ایسا کرنےکے لیے انہیں کہاگیا تھا۔

جو شخص اس وقت ملک کا چیف جسٹس ہے، اسے تو چند سال پہلے ایک صحافی کے اسلام آباد میں اغوا اور قتل کے انکواری کمیشن کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ یہ جج تو قاتلوں کا تعین نہ کرسکا، ملک کے لوگوں کو کیا انصاف دے گا۔

اگر یہ جج مخلص ہوں تو کب کی پورے ملک سے بدعنوانی، رشوت ستانی، اقرا پروردی، بدیانتی، چوری چکاری و لوٹ مار ختم ہوجاتی اور انصاف کا بول بالا ہوجاتا۔ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے مقدمے ہیں جو دس دس اور بیس بیس سالوں سے ملتوی ہیں۔ لوگ انصاف کے انتظار میں بوڑھے ہوچکے ہیں اور کئی انصاف کے بغیر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن انہیں اب تک انصاف نہیں ملا۔ کبھی جج چھٹی پر ہوتا ہے اور کبھی وکیل حاضر نہیں ہوتا اور منشی تاریخ پہ تاریخ لیتا رہتا ہے۔ مدعی اور مدعا علیھا دونوں بگتے رہتے ہیں، پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع ہوتا ہے اور جج ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ سوچنے کے بات ہے کہ نوازشریف کے کیسوں میں ایسا نہیں ہوا، وکیلوں سے جج تیز دکھائی دیئے۔

ان ججوں کی کیا بات ہے۔ اسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کے لیے آج کل ایک جج نے ملک کے دوروں پر دوروں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے تاکہ اس سیاسی کشمکش میں ہیرو بننے کا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ ڈیموں کے لیے پیسے جمع کرنے اور پھر قرض اتارو کے منصوبہ بنایا جارہاہے۔ ایک تو فیصلہ کرتے وقت عوام کو بے وقوف بنایا گیا اور اب ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بنا کر خود کو ہیرو بنایاجائے۔ ارے بھائی ڈیم بنانے کے لیے ملک میں پیسوں کی کمی نہیں مگر فیصلہ کرنے کی جرت نہیں اور اچھی پالیسیوں کی کمی ہے۔ اس طرف نشاندہی کیوں نہیں کرتے؟ کیا کالاباغ اور بھاشا ڈیم پیسوں کی کمی کی وجہ سے اب تک نہیں بنے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ ڈیم غلط پالیسیوں اور بدانتظامی کی وجہ سے اب تک نہیں بنے۔ اے جج صاحبان ملک کی پالیسیاں ٹھیک کرائیں، مسئلے خود بخود حل ہوجائیں گے۔

جہاں تک ن لیگ اور نوازشریف کے مستقبل کا تعلق ہے تو یہ جماعت نوازشریف کے مرہون منت ہے۔ اگرنوازشریف کا سیاسی دور ختم ہوتا ہے تو یہ جماعت بھی کمزور ہوجائے گی۔ نوازشریف کی وطن واپسی بہت ہی اہم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف نے اپنا اور اپنی جماعت کا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ معاملہ فہمی سے کام لیا ہے۔ یہ معاملہ فہمی کیا ہے؟ وقت آنے پر کچھ نہ کچھ ضرور آشکار ہوجائے گا۔ اس مبہم ڈیل کو سمجھنے کے لیے نوازشریف کی سابقہ دونوں ڈیلوں کو سمجھنا ہوگا۔ پہلی ڈیل پاکستان سے  سعودی عرب جانے کے لیے تھی اور دوسری ڈیل وطن واپس آنے کے لیے تھی۔ اگرچہ نوازشریف کی جانے کی ڈیل تو مشرف اینڈ کمپنی نے افشاء کردی تھی لیکن واپسی کی ڈیل مقفل ہی رہی۔ اس زمانے میں بے نظیربھٹو کی این آراو ڈیل کا زیادہ چرچہ ہوا تھا جبکہ نوازشریف کی سابقہ واپسی کی ڈیل کی تفصیلات آج تک واضح طور پر سامنے نہیں آئیں کہ وہ کس طرح دس سال نہ آنے کا معاہدہ کرکے وقت سے پہلے ہی  واپس آگئے تھے؟

اب بھی ایسا ہی ہوگا، نوازشریف کی موجودہ ڈیل خفیہ ہی رہے گی لیکن وہ اس ڈیل کے تحت اس ماہ کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں عمران خان کی حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے اور اس طرح نوازشریف کو ان کے کیسس میں رعایت ملنے کے امکانات ہیں۔ اسی اثنا میں نوازشریف کی پوری کوشش ہوگی کہ ن لیگ کی ہی پنجاب میں حکومت برقرار رہے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ پنجاب پر کئی شکاری سرکار ہتھیانے کے لیے نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ن لیگ پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرلے لیکن اس صورت میں زبردست لوٹہ گیری یا ہارس ٹریڈنگ ہوگی۔ ڈیل کرنے والے ان شکاریوں کو کھلا چھوڑ دیں گے تاکہ وہ اپنا شکار خود حاصل کرلیں۔ کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اگر اس بار بھی پنجاب ن لیگ کے ہاتھوں میں رہا  تو پھر مرکز میں مخالف حکومت کا چلنا محال ہوگا۔ اسی لیے کوشش یہی ہوگی کہ پنجاب میں کسی صورت میں ن لیگ کی حکومت بننے نہ پائے۔ اگر بن بھی جائے تو بہت کمزور ہو اور معاملہ فہم ہو۔





وطن واپسی پر لاہور میں نوازشریف کے استقبال کے لیے آنے والوں کا بڑا ہجوم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے بھائی شہبازشریف کسی بھی صورت میں پنجاب کی حکومت ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ اس بارلگتا ہے کہ نوازشریف نے ن لیگ اور اپنے مستقبل کے لیے ڈیل کی ہے اور ان کی یہ بھی خام خیالی  ہے کہ وہ پنجاب کی حکومت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بار انہیں پنجاب کی حکومت بھی ملتی نظر نہیں آتی۔ مگر انہیں اعلیٰ عدالتوں سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور مل جائے گا کیونکہ نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف فیصلے بہت ہی کمزور ہیں۔ البتہ حکومت میں آنے کے لیے انہیں مزید پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ آئندہ پانچ سالوں میں کیا ہوتا ہے، کچھ نہ کہا جاسکتا۔

اب جہاں تک سوال قریب الوقوع میں برسراقتدارآنے والی وفاقی حکومت کا ہے، پاکستان کے الجھے ہوئے مسائل پر قابو پانا نئی حکومت کے لیے بھی مشکل ہوگا۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت کتنی مخلص ہوگی یا بعض قوتیں نئی حکومت کو بھی کام کرنے دیں گی یا پھر یہ حکومت بھی پچھلے ادوار میں بننے والی حکومتوں کی طرح مفلوج ہی رہے گی۔ اگر عمران خان وزیراعظم بن جاتے ہیں تو کیا وہ کر پائیں گے جس کا وہ جگہ جگہ وعدہ کربیٹھے ہیں؟ اگروہ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلیں گے اور سادگی اپنائیں گے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی پرتعیش زندگی ختم کردیں گے اور عام لوگوں کیطرح رہنا شروع کردیں گے؟ کیا وہ وزیراعظم بنتے ہی بنی گالہ اسلام آباد میں  اپنی تین سو کنال کی رہاشگاہ کو تین تین مرلوں کے پلاٹ بنا کر بے گھر غریبوں میں تقسیم کردیں گے؟ کیا بڑی بڑی جاگیروں والے ان کے ساتھی بھی ایسا ہی کریں گے؟ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

Recommended For You

Leave a Comment