اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم کے سابق سیکریٹری، فواد حسن فواد کی ہائی پروفائل گرفتاری مبینہ طور پر نیب کے اختیارات کے غلط استعمال کا زبردست کیس ہے کیونکہ جن الزامات کے تحت فواد حسن کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سنگین خامیاں پائی جاتی ہیں۔ فواد کے قریبی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ فواد کو بنا کسی ٹھوس شواہد کے تنگ اور گرفتار کیا گیا اور نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے کسی بھی آزاد انکوائری کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہو سکتی ہے۔ ذریعے نے کہا کہ اس معاملے کو کیس اسٹڈی سمجھیں اور آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کس ظالمانہ انداز سے نیب اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مخصوص لوگوں کو ہدف بناتا ہے۔ جمعرات کو گرفتاری سے قبل، فواد کو نیب نے کئی مرتبہ طلب کیا لیکن ان سے صرف آشیانہ اقبال پروجیکٹ کے متعلق سوالات کیے گئے۔ لیکن گرفتاری کے بعد مزید الزامات عائد کیے گئے تاکہ جاری تحقیقات کو وجہ بنا کر فواد کو مہینوں تک بیورو کی حراست میں رکھا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب کی چارج شیٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے انہوں نے مال بنایا۔ فواد حسن اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری عملدرآمد تھے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2013ء میں پنجاب لینڈ ڈیولمپنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) طاہر خورشید ا ور پروجیکٹ ڈائریکٹر علی معظم پر دبائو ڈالا کہ میسرز چوہدری لطیف اینڈ سنز کے ساتھ آشیانہ کا کنٹریکٹ منسوخ کیا جائے اور یہ ٹھیکہ کامران کیانی (اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی) کی کمپنی کو دیا جائے۔ نیب نے فواد پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے میسرز چوہدری لطیف اینڈ سنز کو پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قوائد کے تحت دیے گئے کنٹریکٹ کے متعلق کمیٹی کی انکوائری رپورٹ کو چھپایا۔ نیب نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے ٹھیکہ منسوخ کیے جانے کی وجہ سے حکومت کو ٹھیکیدار کو 59؍ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ بیورو نے مزید کہا ہے کہ کنٹریکٹ کی تنسیخ کی وجہ سے پروجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں تعمیراتی اخراجات میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا۔ فواد پر یہ بھی الزام ہے کہ پنجاب کے سیکریٹری صحت کی حیثیت سے انہوں نے 6؍ موبائل ہیلتھ یونٹس مہنگے نرخوں میں خریدے تھے۔ نیب کے الزامات کے برعکس، فواد کے قریبی ذرائع کی جانب سے دی نیوز کو دیے گئے حقائق کچھ اور ہی کہانی پیش کرتے ہیں اور نیب کے تیار کردہ کیس کی نفی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2012ء میں پی ایل ڈی سی نے آشیانہ اقبال پروجیکٹ میں سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کی اسکیم پیش کی، اس منصوبے کو آشیانہ دوم کا نام دیا گیا۔ بعد میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو شکایت موصول ہوئی کہ کچھ غلط اقدام ہوا ہے اور ٹھیکہ چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کو ٹینڈرز میں چیزیں شامل کرکے اور غلط اقدامات کے ذریعے دیا گیا ہے۔ شکایت گزار نے ٹھیکے دار اور پی ایل ڈی سی کے انجینئرز کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ریکارڈنگ بھی پیش کی۔ اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد، فواد حسن فواد کے مشورے پر وزیراعلیٰ نے اچھی ساکھ کے حامل سیکریٹری خزانہ پنجاب طارق باجوہ کی سربرا ہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں۔ باجوہ کمیٹی نے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقا ت کی تجویز دی۔ غلط ٹھیکہ دینے کی شکایت کرنے والوں میں جنرل کیانی کے بھائی کامران کیانی کی کنسٹرکشن کمپنی شامل تھی ۔ فواد حسن نے باجوہ انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ کو جمع کرائی جنہوں نے حکم دیا کہ معاملہ اینٹی کرپشن ادارے کو بھجوایا جائےتاکہ مزید انکوائری ہو اور قانونی کارروائی ہو سکے۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر فواد نے یہ احکامات لکھے۔ فواد کے قریبی ذرائع کے مطابق، یہ بتانا ضروری ہے کہ حکم میں یہ لکھا تھا کہ کامران کیانی کی کمپنی اہلیت نہیں رکھتی کیونکہ اس نے ڈیڈلائن کے بعد اپنا ٹینڈر جمع کرایا تھا۔ لہٰذا کیانی کی کمپنی کو وزیراعلیٰ کے احکامات، جنہیں فواد حسن نےلکھا، کے تحت اس پروجیکٹ سے نکال دیا گیا۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی، فواد حسن کو نگراں حکومت نے او ایس ڈی لگا دیا گیا اور 2013ء کے انتخابات کے بعد انہیں وزیراعظم آفس نے ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اینٹی کرپشن محکمے نے کئی مہینوں بعد آشیانہ پرو جیکٹ پر کارروائی کی۔ پی ایل ڈی سی نے بھی کئی مہینوں بعد ٹھیکہ اس وقت منسوخ کر دیا جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2013ء کے الیکشن کے بعد دوبارہ قائم ہوئی۔ اس وقت فواد حسن کا پنجاب حکومت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری لطیف کی کمپنی نے ٹھیکہ منسوخ کیے جانے کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں اٹھایا، اور ثالثی کے بعد کمپنی کو ہرجانے کے طور پر چند لاکھ روپے دیے گئے تاہم ٹھیکہ بحال نہیں کیا گیا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب فواد حسن پنجاب انتظامیہ چھوڑ چکے تھے۔ بعد میں پنجاب حکومت نے آشیانہ اقبال کا پورا ماڈل ختم کرکے فیصلہ کیا کہ اسے پرائیوٹ پبلک پارٹنرشپ کے نئے قانون کے تحت شروع کیا جائے گا، نہ کہ سرکاری فنڈنگ کے پروجیکٹ کے تحت۔ اس کے بعد پروجیکٹ کا ٹھیکہ بسم اللہ بلڈرز کو دیا گیا، اور یہی وہ کیس ہے جس میں لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کو نیب نے ملوث کیا ہے۔ نیب کا الزام ہے کہ فواد نے اس وقت کے آرمی چیف کو خوش کرنے کیلئےکنٹریکٹ اس لیے منسوخ کرایا تاکہ اسے کامران کیانی کی کمپنی کو دیا جا سکے جبکہ فواد کا لکھا ہوئے آرڈر میں کامران کیانی کی کمپنی کو ٹھیکے سے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ مزید برآں، کنٹریکٹ پی ایل ڈی سی نے کرپشن اور غلط اقدامات کی وجہ سے منسوخ کیا جس کی تصدیق باجوہ کمیٹی رپورٹ میں بھی کی گئی۔ نیب نے فواد کی گرفتاری کے بعد جاری کردہ اپنی پریس ریلیز میں ان کیخلاف کچھ دیگر الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ایک نجی بینک میں ملازمت کر رہے تھے۔ فواد نے 2005ء میں (مشرف کے دور میں) سرکاری ملازمت سے رخصت حاصل کی اور الفلاح بینک میں کام کیا۔ یہ بنا تنخواہ کے چھُٹی تھی، جسے نیب نے جرم قرار دیا ہے۔ ایسے سیکڑوں افسران ہیں جو چھُٹی لے کر نجی شعبے یا پھر غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کیلئے کام کرتے ہیں۔ ذریعے نے سوال کیا کہ کیا ای اینڈ ڈی رولز کے مطابق یہ جرم یا کوئی کوتاہی ہے بھی کہ نہیں، کیا نیب نے کسی اور کو نجی شعبے کیلئے کام کرنے کے جرم میں کبھی گرفتار کیا ہے؟ الفلاح بینک کے بعد فواد حسن فواد نے جے ایس بینک کی ذیلی کمپنی اسپرنٹ کیلئے کام کیا اور ان کے سی این جی اسٹیشن لگائے۔ نیب نے اسے بھی جرم قرار دیا ہے۔ فواد حسن چھُٹی پر تھے اور کمپنی کو اس کا بزنس قائم کرنے کیلئے اپنی قانونی اور لینڈ ایڈمنسٹریشن کا ہنر دے رہے تھے۔ پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کے دور میں ان کے پاس سی این جی اسٹیشن لگانے کی منظوری دینے کے اختیارات نہیں تھے۔ ذرائع نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا نیب نے کسی اور سرکاری ملازم کو گرفتار کیا ہے جس نے سی این جی اسٹیشن لگانے کی منظوری دی اور پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کے دور میں فواد حسن فواد کے دبائو میں کوئی کام کیا؟ کسی بھی افسر نے یہ گواہی نہیں دی کہ فواد حسن نے چھُٹی پر رہتے ہوئے اس پر دبائو ڈالا یا غیر قانونی طور پر سی این جی اسٹیشنز لگانے کی منظوری حاصل کی لیکن نیب نے فواد کیخلاف اپنی چارج شیٹ میں ان باتوں کو بھی شامل کر دیا۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ ایک اچھی ساکھ کے حامل سرکاری ملازم رانا نصیر ملازمت میں رہتے ہوئے اور چھُٹی کے دوران گزشتہ 15؍ سال سے جہانگیر ترین کی شوگر مل کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ کیا سرکاری ملازم کیلئے حکومت سے چھٹُی لے کر نجی کمپنی میں کام کرنا جرم ہے؟ نیب کی جانب سے فواد حسن فواد پر عائد کردہ ایک اور الزام کے حوالے سے ذریعے نے کہا کہ موبائل ہیلتھ یونٹس کی خریداری کے حوالے سے کبھی کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ ذریعے نے حیرانی کا اظہار کیا کہ نیب ایک افسر کیخلاف تمام الزامات ایک ہی کیس میں کیسے شامل کر سکتا ہے؟ ذریعے نے کہا کہ نیب صرف آشیانہ کا مشکوک کیس ہی دیکھ سکتا تھا لیکن فواد کیخلاف ان کی گزشتہ 10؍ سال کی ملازمت (پانچ سال پنجاب میں اور پانچ سال وزیراعظم ہائوس میں) میں کچھ نہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب راولپنڈی آفس اس وقت ایک شکایت کی تصدیق کے عمل سے گزر رہا ہے جس میں فواد پر راولپنڈی کے مرکز می ایک بڑا شاپنگ مال بنانے تعمیر کرنے کا الزام ہے۔ شکایت گزار نے اس کیس میں سوال کیا ہے کہ 21؍ گریڈ کا افسر (فواد حسن فواد) اتنی مہنگی پراپرٹی کا ملک کیسے ہو سکتا ہے اور اسے کیسے تعمیر کرا سکتا ہے؟ اگرچہ فواد حسن کو نیب راولپنڈی نے کبھی طلب نہیں کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ مذکورہ پراپرٹی فواد کی فیملی کی ہے، جس کی تعمیر کیلئے انہوں نے بینک سے تعمیراتی قرضہ لیا تھا۔ فواد حسن کا تعلق کاروباری خاندان سے ہے اور کہا جاتا ہے کہ ٹیکس حکام کو ہر معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
خبر: جنگ