تحریر: سید سبطین شاہ
مقبوضہ کشمیر کے علاقے بارا مولا کے ایک ذیلی قصبے کا نام ’’کیریڑی‘‘ ہے جس سے ہمارے خاندان کا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ ہمارا تعلق کیریڑی کی مشہور درگاہ یعنی مزار اقدس حضرت میرحاجی سید محمد مراد شاہ بخاری صاحب ہے۔ انہی کی اولاد میں سے حضرت میر سید سلطان محمد شاہ بخاری، ان کے والد حضرت میر سید محمد شاہ اور ان والد حضرت میر سید حبیب اللہ شاہ نے آج سے تقریباً چارسو سال پہلے کیریڑی (موجودہ مقبوضہ کشمیر) سے موجودہ پاکستان کے علاقے مانسہرہ ہجرت کی۔
آج ان کی اولاد مانسہرہ میں دوتین علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اور ان میں سے مشہور علاقے پیراں شریف اور خیرآباد ہیں جہاں ان کی اولاد میں سے دومشہور بزرگوں حضرت سید شاہ محمد کبیر اور حضرت سید شاہ محمد صغیر کے مزارات ہیں۔
گذشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے نامور صحافی اور چیف ایڈیٹر رائزنگ کشمیر سید شجاعت علی بخاری بھی حاجی مراد شاہ صاحب کی اولاد میں سے ہیں۔ شجاعت بخاری کی تدفین جمعہ الوداع کے روز ہی کیریڑی کے قبرستان میں ہوئی۔ جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے اور شہید کو اشک بارآنکھوں کے ساتھ رخصت کیا۔
راقم کا تعارف شجاعت بخاری کے ساتھ چارسال قبل اس وقت ہوا جب ہمارے مہربان اور یورپ میں کشمیرکے لیے جدوجہد کرنے والی عظمیم شخصیت چیئرمین کشمیرکونسل ای یو جناب علی رضا سید نے برسلز سے فون کرکے شجاعت بخاری سے اسلام آباد میں ملنے کے لیے کہا۔
شجاعت بخاری ان دنوں کشمیر میں امن مہم کے سلسلے میں ایک وفد کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ کچھ دوستوں سے رابطے کے بعد جن میں مشہور کالم نگار اور دانشور ارشاد محمود اور حریت رہنما میرطاہر مسعود بھی شامل تھے، شجاعت بخاری سے رابطہ ہوگیا۔ بخاری صاحب نے بتایاکہ اسلام آباد کلب میں شام کو ان کا ایک پروگرام ہے، وہاں تشریف لائیں، ملاقات ہوجائے گی۔
بہرحال اسلام آباد کلب میں شجاعت بخاری سے ملاقات ہوئی۔ جناب علی رضا سید کے حوالے سے وہ گرم جوشی سے ملے چونکہ وہ اس سے قبل برسلز میں کشمیرکونسل ای یو کے کشمیر پر ایک پروگرام کے مہمان بن چکے تھے۔ اسی دوران جب راقم نے مرحوم سے پوچھا کہ آپ بخاری سادات میں سے ہیں، کیا آپ کیریڑی کے بخاری سادات یعنی حضرت حاجی مراد شاہ صاحب کی اولاد کو جانتے ہیں تو انھوں نے فوراً کہاکہ وہ ہمارا خاندان ہے، آپ ان کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں؟ راقم نے عرض کی کہ ہمارا خاندان بھی حضرت حاجی مراد شاہ صاحب کی اولاد میں سے ہے اور ہمارے اجداد بھی وہاں سے ہی ہجرت کرکے مانسہرہ آئے تھے۔ اس پر شجاعت بخاری مزید پر مسرت ہوگئے اور اٹھ کر گلے سے لگایا۔ اسی وجہ سے انھوں نے وہاں موجود دیگر دوستوں کے ساتھ بھی ایک بار پھر تعارف کروایا کہ یہ ہمارے عزیز ہیں۔
اس وقت سے آج تک شجاعت بخاری سے ہمیشہ واٹس ایپ پر رابطہ رہا اور کشمیرکے موضوع پر تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا۔ چند ماہ قبل مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک پی ایچ ڈی سکالر جناب روشن اکبر نے کیریڑی سے حضرت حاجی مراد شاہ صاحب کی زیارت کی کچھ تصاویر بھی راقم کو ارسال کیں اور راقم نے ان تصاویر کے ساتھ ایک مضمون بھی سوشل میڈیا پر شائع کیا تھا جس پر شجاعت بخاری نے مسرت کا اظہارکیا تھا۔ شہید شجاعت بخاری مقبوضہ کشمیرمیں امن چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگ ایک بار پھر ایک دوسرے سے مل جائیں۔ ان کو اس بات کا احساس تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور اسی وجہ سے وہ دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرے وہاں کشمیر پر ہونے والی کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے اور اپنا تجزیہ پیش کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ بیرون ممالک اخبارات کے لیے انگریزی میں آرٹیکلز بھی لکھتے تھے۔ جمعرات ۲۹ رمضان کی شام افطار سے چند لمحات پہلے ان کی شہادت کی خبر نے پورے کشمیر، پورے پاکستان اور جہاں جہاں کشمیر رہتے ہیں، سب کو دکھی کردیا ہے۔ وہ ایک عظیم مدبر اور بے باک صحافی تھے۔ کشمیری ایک عظیم دانشور سے محروم ہوگئے اور کشمیر کی صحافت ایک کہنہ مشق اور قدآور صحافی سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ امین