اوسلو (پ۔ر)
پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال نے اسلام آباد میں صحافیوں پر تشدد کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار انگریز دورکے تمام کالے اور فرسودہ قوانین ختم کروانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اسلام آباد میں عالمی یوم آزادی صحافت پر پولیس کی طرف سے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اس واقعے کی عدالتی انکواری کروانے کا حکم دیا ہے اور دفعہ 144 کو انگریز دور کا کالا اور کالونیل قانون قرار دیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے جمعرات کے روز دفعہ 144 کے نفاذ کو بہانہ بناتے ہوئے صحافیوں کی ریلی کو آگے جانےسے روکا اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔
یادرہے کہ دفعہ 144 پاکستان میں کریمینل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کا حصہ ہے جس کے تحت متعلقہ علاقے میں پانچ یا پانچ زائد افراد کا اجتماع ممنوع ہوتا ہے۔ یہ قانون انگریز دور میں اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ اس کو استعمال کرکے ہندوستان کی تحریک آزادی کوسختی سے روکا جاسکے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے پولیس حکام کو جمعہ کے روز عدالت بلاکران کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کب سے نافذ ہے جس پر پولیس نے بتایاکہ یہ چارسالوں سے نافذ ہے۔ حالانکہ اس قانون کا اطلاق بہت کم عرصے کے لیے ہوتاہے۔
پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال نے صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان پر پولیس تشدد کی مذمت کی۔ انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے موقع دیاہے تاکہ وہ ملک سے غیرمنصفانہ قوانین ختم کرواسکیں اور ان کے اقدامات کی بدولت لوگوں پر ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہوسکے۔
انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اوورسیز پاکستانی بھی چیف جسٹس سے امید لگائے ہوئے ہیں اور ملتمس ہیں کہ ان کے مسائل کے لیے بھی عدالتی کاروائی کریں اور اس سلسلے میں متعلقہ محکموں کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا پابند بنایاجائے۔ ادھراوورسیزپاکستانیوں کی دیگر تنظیموں اور شخصیات نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدامات کو سراہا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کروائیں۔
واضح رہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں بعض محکموں کے عہدیداروں کے منفی رویئے کا سامنا ہے اور اس کے علاوہ ان کے مسائل میں نادرا کارڈ کے اجرا کی بھاری فیس اور پرانے پاکستانی کارڈ کو کینسل کرنے کے بہانے بلاوجہ فیس، دوسری ملکی شہریت لینے کی صورت میں این او سی کے اجرا میں تاخیر، پولیس کی زیادتیوں، پراپرٹی کے مسائل، پارلیمنٹ میں عدم نمائندگی اور ووٹ کے حق سے محرومی وغیرہ شامل ہیں۔