اسلام آباد (طارق بٹ) جنرل (ر) پرویز مشرف کسی بھی انتخاب میں شرکت سے نا اہل قرار دیئے جانے کے باوجود آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کررہے ہیں۔ نواز شریف جنہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی معزول کیا گیا، انہیں بھی ایسی ہی قانونی معذوری کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر پرویز مشرف کو آل پاکستان مسلم لیگ کا صدر ظاہر کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی بنچ نے نااہل قرار دیئے جانے کے اپنے 28؍ جولائی کے فیصلے کے تحت نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی سربراہی سے بھی روک دیا۔ اسی پیمانے کے تحت سپریم کورٹ نے اپنے فوری فیصلے میں پرویز مشرف کو آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سے روک دیا۔ سابق فوجی آمرکو نوازشریف کے مقابلے میں زیادہ سنگین الزامات کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کو 2013ء کے عام انتخابات کےموقع پرانتخابات لڑنے سے نا اہل قرار دیا گیا تھا اور یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے۔ ان پر آرمی چیف کی حیثیت سے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال، صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنے حلف کی خلاف ورزی اور اعلیٰ
عدلیہ کے ججوں کو نظربند کرنے کے سنگین الزامات تھے۔ اس وقت پرویز مشرف کے قومی اسمبلی کے چار حلقوں این اے 250؍ کراچی، این اے 139؍ قصور، این اے 48؍ اسلام آباد اور این اے 32؍ چترال سے کاغذات نامزدگی اسی بنیاد پر مسترد کردیئے گئے تھے۔ آئین کے آرٹیکلز 62؍ اور 63؍ کے تحت الیکشن ٹریبونل نے قرار دیا چونکہ وہ صادق و امین نہیں رہے لہٰذا انتخاب لڑنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔ سابق آمر نے کہا کہ وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل وطن واپس آکر جعلی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد (پی اے آئی) کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑیں گے اور اپنے امیدوار بھی کھڑے کریں گے۔ نواز شریف کے خلاف فیصلے میں گو کہ یہ الفاظ استعمال کئے گئے کہ آرٹیکل 62؍ کے تحت ’’کوئی بھی شخص‘‘ جو نااہل قرار دیا گیا، اس کا ہدف پرویز مشرف بھی بنتے ہیں۔ اب اگر وہ انتخابات میں خود اور اپنے امیدوار بھی کھڑے کرتے ہیں توا ن کی اہلیت کا سوال اٹھ سکتا ہے۔
خبر: جنگ