نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، جس کے بعد انہیں عدالتی حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔
سابق ایس ایس پی ملیر کے پیش ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور ان کی حفاظتی ضمانت منسوخ کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اتنے دن کہاں چھپے تھے، آپ تو بہادر اور دلیر تھے؟ آپ کو یقین دہانی کرائی تھی پھر بھی آپ نے عدالت پر اعتماد نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے راؤ انوار سے کہا کہ ہم نے آپ پر اعتماد کیا آپ نے خود کو سرینڈر کیوں نہیں کیا، ہم جے آئی ٹی بنا رہے ہیں جو کچھ کہنا ہے کمیٹی میں کہنا، عدالت نے آپ کو وقت دیا۔
سپریم کورٹ نے راؤانوار کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم بھی دیا۔
راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل نے عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قانون کے سامنے، عدالت کی عظمت کے سامنے سرینڈر کیا ہے، احسان نہیں کیا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ آپ بڑے دلیرتھے، کہاں تھے اتنے دن؟ آپ عدالتوں کو خط لکھ رہے تھے، جو خط لکھے گئے ہیں ان کا تاثر درست نہیں، آپ کو موقع دیا، آپ نے عدالت پر اعتبار کیوں نہیں کیا؟
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کیس کی آزاد تحقیقات ہونی چاہیے، راؤ انوار کو تحقیقات مکمل ہونے تک حفاظت میں رکھا جائے، راؤ انوار کو تحفظ فراہم کرنا سندھ پولیس کی ذمے داری ہے۔
سپریم کورٹ نے راؤانوار کے اکاؤنٹ بحال کرنے کی بھی ہدایت دے دی۔
راؤ انوار سے تفتیش کے لیے سپریم کورٹ نے 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جس کے سربراہ آفتاب پٹھان ہیں۔
جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں ولی اللہ دل، آزاد احمد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان شامل ہیں۔
عدالتی کارروائی کے بعد راؤ انوار جیسے ہی عدالت سے باہر آئے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
اس سے پہلے راؤ انوار سیاہ لباس پہن کر اور چہرے پر ماسک لگا کر سفید رنگ کی گاڑی میں عدالت پہنچے۔
ان کے ہمراہ اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری تھی جس نے انہیں گھیرے میں لے رکھا تھا۔
قبل ازیں راؤ انوار کو چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت دی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے وہ خود کو عدالت میں پیش کر کے اس کی پناہ میں آجائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے پاس اب بھی مہلت ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوجائیں، اگر راؤ انوار عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو ان کی جان بچ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ راؤ انوار کا اگر کوئی سہولت کار ہے تو اس کا پتہ چلایا جائے۔
انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر راؤانوار کا کوئی سہولت کار ہوگا تو اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی۔
واضح رہے کہ رواں سال 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا تھا۔
واقعے کے بعد 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر اس قتل کے خلاف کافی لے دے ہوئی اور میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس سفاکانہ قتل کی مذمت کی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے بھی انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
خبر: جنگ