جس نے کام نہیں کرنا وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے ،چیف جسٹس

Cheif Justice Saqib Nisar

غیر معیاری اسٹینٹس سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کےدوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جس نے کام نہیں کرنا وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے ،اسٹینٹس کی قیمتیں خود مقرر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسپتال جائیں تو اعتراض کیا جاتا ہے ۔

عدالت نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو روسٹرم پر بلا لیا،چیف جسٹس نے سوال کیا ،جو اسٹینٹ آپ نے بنائے تھے وہ کہاں ہیں ،ثمر مبارک نے جواب دیا کہ ساڑھے چارسو اسٹینٹ تیار کرا کر ٹیسٹ کے لیے جرمنی بھیجے، اس کے بعد وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔

عدالت نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے ایک ہفتے میں تحریری جواب اوراٹارنی جنرل سے ایک ہفتے میں آڈٹ رپورٹ طلب کرلی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پمز سے اینجیو پلاسٹی کی تفصیلات طلب کر لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹینٹس کی قیمتیں خود مقرر کریںگے۔ کیوں نہ چائناکے اسٹینٹس کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے؟

اسٹنٹس کیس سے متعلق کیس کی سماعت میں ایڈیشل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پمز اینجیو گرافی کے 10 ہزار، اینجیو پلاسٹی کے 40 ہزارروپے لیتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پمز میں عام طور پر کون سا اسٹینٹ استعمال کیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جس نے کام نہیں کرنا وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے۔ اسٹینٹس کی قیمتیں خود مقرر کریںگے۔ تمام امپورٹرز کو بلا کر تفصیلات لیں گے،مریض بے چارے کو کیا معلوم اس کے ساتھ کیا ہونا ہے ۔

ڈاکٹر اختر نے کہا کہ پمز میں 70 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک کے اسٹینٹس استعمال ہوتے ہیں، پمز میں اینجیو پلاسٹی کا مکمل پیکج ایک اسٹینٹ کے ساتھ 2 لاکھ روپے تک ہے۔ سپریم کورٹ نے پمز سے اینجیو پلاسٹی کی تفصیلات طلب کر لیں۔

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر شاہد عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی مریضوں کو تمام سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

پنجاب میں دل کے مریضوں کے لیے 5اسپتال ہیں، کارڈیالوجی اسپتال، راولپنڈی، لاہور، ملتان، وزیر آباد اور فیصل آباد میں ہیں۔ کارڈیالوجی اسپتالوں کو اسٹینٹ 15 ہزارروپے میں ملتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا مجھے بھی 15 ہزار والا اسٹینٹ ڈالیں گے؟

ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ ڈرگ ایلویٹنگ اسٹینٹ 34 ہزارروپے میں ملتا ہے۔ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے سے بہت بہتری آئی ہے۔ کوشش ہے کہ اینجیو پلاسٹی کا مکمل پیکج ایک لاکھ سے بھی کم ہو۔

ڈاکٹر شاہد نے بتایا کہ پرائیویٹ مریضوں سے 76 ہزار سے 90 ہزار تک وصول کیے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ کیا چائنا کے اسٹنٹ قابل استعمال ہیں؟ ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ چائنا کے اسیٹنٹ کبھی استعمال نہیں کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چائنا کے اسٹینٹ قابل استعمال نہیں تو رجسٹرڈ کیوں کیے؟ کیوں نہ چائنا کے اسٹینٹس کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے؟ مریض کو ڈالے گئے اسٹینٹس کی تمام تفصیلات فراہم کی جائیں، میں اسپتال جائوں تو اعتراض کیا جاتا ہے، اینجیو پلاسٹی کے تمام عمل کی پریزنٹیشن عدالت میں دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں جان بچانے والی ادویات موجود نہیں۔ مارکیٹ میں 70 سے 80 اقسام کے اسٹینٹس دستیاب ہیں۔

ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ تمام اسٹینٹس قابل استعمال نہیں، اسٹینٹس چیک کرنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس کوئی طریقہ ہی نہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی صرف کاغذات دیکھ کر منظوری دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پرائیویٹ اسپتالوں کو مریضوں کو ذبح کرنے نہیں دیںگے۔ چیف جسٹس نے نجی ہسپتال کے سربراہ سے جواب طلب کر لیا۔

خبر: جنگ




Recommended For You

Leave a Comment