تحریر: سید سبطین شاہ
ان دنوں ایک معصوم بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کے وحشیانہ قتل کی خبر زبان زد عام ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے شہر میں ہوا جس کا تعلق پنجابی زبان کے عظیم صوفی وفلسفی شاعراور ولی خدا حضرت عبداللہ شاہ المعروف ’’بابا بلھے شاہ‘‘ سے ہے۔ شہرقصور بابابلھے کے نام سے جانا جاتاہے۔ بابا بلھے شاہ مغلیہ عروج کے دوران پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنے گرانبہا کلام کے ذریعے انسانی معاشرے کی اصلاح کی کوشش کی۔
قصور میں سات سالہ زینب کے ساتھ یہ پہلی واردات نہیں بلکہ آج سے دو سال قبل اسی شہر میں بچوں سے زیادتی کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ قصور کے علاقے گنڈا سنگھ والا میں ایک گینگ نے دہشت پھیلا رکھی تھی جو کئی سالوں تک بچوں کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا بلکہ ان بچوں کی ویڈیو بناکر ان کے والدین کو بلیک میل بھی کرتاتھا۔ گینگ میں 25 سے زائد لوگ شامل تھے اورجنہوں نے280 بچوں سے زیادتی کی اور ان کی بنائی ہوئی 400 ویڈیوز کی خبر بھی منظر عام پر آئی تھی۔
اب قصور میں زینب کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کی خبرکے سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ پہلی بچی نہیں بلکہ گیارہ اور بچیاں بھی ہیں جن کے ساتھ انہی دنوں اسی شہر میں اسی طرح کی زیادتی ہوچکی ہے۔ کیا یہ صرف قصور میں ہورہاہے یا پھر پورا ملک اس طرح کے گھناونے جرائم کی زد میں ہے؟
قصور اس ہستی کا شہر ہے اگر اس شہر کے لوگ اس کی ہی ہدایت پر عمل کریں تو یہ شہر پورے ملک کے لیے مثال بن سکتاہے۔ بابابلھے شاہ انسان کو اپنے نفس کے ساتھ لڑنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ دکھلاوے کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور عمل کی بات کرتے ہیں۔ ان کے بقول انسان کتنا ہی عالم و فاضل کیوں نہ بن جائے لیکن اگر وہ اپنے اندر برائیوں کو ختم نہیں کرسکتا تو پھر اس کا علم فضول ہے۔
بابا بلھے شاہ کہتے ہیں:
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا
کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا ای نہیں
جا جا وڑ دا مسجداں مندراں اندر
کدے من اپنے وچ و ڑ یا ای نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا
کدی نفس اپنڑے نال لڑیا ای نہیں
بلھے شاہ اسماننی اڈدیاں پھڑدا ایں
جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پڑیا ای نہیں
اسی طرح ایک اور مقام پر انسان کو بتاتے ہیں کہ نام کا قاضی، غازی اور حاجی بن جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے رب کو راضی کرنا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں:
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی
یہ اشعار بہت ہی اہم ہیں اور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ خاص طورپر بابا بلھے شاہ نے قاضی کا اشارہ آج کے چیف جسٹس کی طرف کیا ہے جو باتیں تو سرعام کرتاہے کہ عدلیہ کے ادارے کی مثال گاؤں کے اس بابا رحمت دین کی ہے جو گاؤں کے لوگوں کے مسائل اور تکالیف سن کر فیصلے کرتا ہے۔ راقم کی طرف سے التماس ہے کہ اے وقت کے قاضی تمھارا بابا رحمتے شاید درست فیصلے کرتاہوگا لیکن اب بابا بلھے شاہ کی بات سنو اور نام کے قاضی کہلوانے کے بجائے کچھ کر کے دکھاو۔
یہ بھی پڑھیے: قصور میں کمسن بچی کے قتل کا المناک واقعہ: پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ
بابا بلھے شاہ نے دوسرا اشارہ ملک کے سپہ سالار کی طرف کیا ہے کہ ہاتھ میں تلوارپکڑ کر اور بیان دے کر نام کے غازی نہ بنو بلکہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرکے دکھاو۔ بلھے شاہ کا تیسرا ہدف وہ سیاسی زعماء ہیں جو کچھ دن پہلے ہی عمرہ کرکے واپس آئے ہیں اور اپنے آپ کو حاجی اور ملک و قوم کا خادم کہلواتے ہیں۔ اے بنی نوع انسانوں، ان القابات سے کام نہیں چلے گا بلکہ بات تب بنے گی، جب رب راضی ہوگا اور بابابلھے اپنے دوسرے اشعار میں کہہ چکے ہیں کہ مسجد اور مندروں میں جانے سے اور ریاکاری سے رب راضی نہیں ہوگا بلکہ خدا کی مخلوق کی خدمت کرکے رب کو بھی راضی کیاجاسکتاہے۔ ملک خداداد میں خدا کی مخلوق کے ساتھ جو سلوک ہورہاہے، وہ ہرکسی کو معلوم ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کا اشتہار لگ چکا ہے۔ دولت جمع کرنے اور دیگر غیراخلاقی امور اور شیطانی خواہشات کی ہوس میں ملک کو تقریباً ہربرائی کا مرکز بنادیاگیاہے۔ دہشت گردی تو پہلے ہی تھی، اب ملک گونا گون گنہاہوں کی دلدل بن چکا ہے۔ کون کون سی برائی کا ذکر کروں، قتل و غارت، جنسی زیادتی، جان و مال و عزت کا عدم تحفظ، بچوں سے بدفعلی، ملاوٹ، جھوٹ و فراڈ، انسانوں کی خرید و فروخت کیا نہیں ہورہا۔ معاشرے ظلم کی چکی میں پس رہاہے۔
یاد رکھو، حضرت علی کرم اللہ وجہٰ نے چودہ سو سال قبل فرمایاتھا:
”حکومت کفر سے چل سکتی ہے، ظلم سے نہیں”
حکمران ہوں یا عدالت کی کرسی پر جج صاحبان، خدا کا خوف کریں اور قصور میں ہونے والے اس ظلم عظیم میں ملوث افراد کے خلاف فوری کاروائی کریں۔ آج وہ مولوی کہاں ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے سے نہیں کتراتے۔ مولوی صاحب، اگرصرف اتناہی سمجھ لو تو تمہارے عذر کے لیے کافی ہوگا کہ آج میدان میں نکلنے کا وقت ہے کیونکہ وطن عزیز میں نبی رحمہ (ص) کے ماننے والوں کے ساتھ بی رحمی اور زیادتی ہورہی ہے اور ان کا کوئی پرساں حال نہیں۔
این جی اوز اور سول سوسائٹی والوں کو تو چاہیے کہ وہ انسانیت کے نام پر ہی آواز بلند کردیں۔ یہ ایک بڑا جرم، غیراخلاقی، غیرشرعی، غیرقانونی اور انتہائی شرمناک حرکت ہے جس پرآج پوری قوم کی آنکھیں شرمسار ہونی چاہیں۔
کم از کم عوامی نمائندوں اور عوام کو چاہیے کہ وہ اس ظلم پر خاموش نہ رہیں کیونکہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی ظلم ہے۔