( تحریر ،محمد طارق )
جب سے میاں نواز شریف کو العزیزہ منی لانڈرنگ کیس میں سزا ہوئی ہے ، جب سے اومنی گروپ کمپنی کا تعلق آصف علی زرداری سے نکلا ہے ، اس وقت سے دونوں سیاسی پارٹیوں کے سپورٹرز ، سیاست دان عام پبلک میں یہ بیانیہ مارکیٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی کو اقتدارتی، انتظامی راستے سے ہٹانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کھیل رہی ہے ، تاکہ دونوں پارٹیوں کی ان کے بقول مقبول لیڈرشپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر ملک پر اپنی مرضی سے حکومت کی جائے –
یہاں پر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ واقعی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ پاکستانی سیاسی منظر نامے میں مقبول ہے ؟ تو پھر اب تک ملک میں ہنگامے ، تھوڑ پھوڑ، مزاہمتی تحریک شروع ہو چکی ہوتی ، پر ایسا نہیں ہوا-
عوامی مزاہمتی تحریک شروع ہوجاتی اگر دونوں پارٹیوں نے اپنے دور حکومت میں عوام کے لیے کچھ نہ کچھ کام کیا ہوتا؟
دونوں پارٹیوں میں عام سیاسی ورکر کی کوئی اہمیت ہوتی ؟
دونوں پارٹیوں کے سربراہان میں شریف، بھٹو خاندان کے علاوہ بھی کوئی دوسرا نام ہوتا ؟
اگر دونوں پارٹیوں نے ٹاپ لیڈرشپ میں عام ورکر کو جگہ نہیں دی ، لیکن کم از کم انتظامی طاقت کو تقسیم کر دیتے ، جس سے ضلعی ، یونین کونسل سطح پر عوام کے پاس اختیارات ہوتے ، تو عام عوام کے بنیادی مسائل کچھ نہ کچھ حل ہوتے نظر آتے، اور انہی پارٹیوں کے عام سیاسی کارکن عوام کے ساتھ مل کر شریف برادران ، ذرداری خاندان کے حق میں اٹھ کھڑے ہوتے ، جس سے بقول ان کے حامیوں کے ان کے خلاف غلط ، ناانصافی پر مبنی احتساب شروع ہوا وہ ناانصافی رک جاتی –
لیکن ایسا نہیں ہوا ، نہ عوام باہر نکلی ، نہ کسی ابھی احتجاجی تحریک شروع ہونے کا نزدیک نزدیک کوئی امکان ہے –
اس عوامی ردعمل سے یہ نقطہ عیاں ہوگیا ہے کہ پاکستانی عوام چاہے جتنی ہی ان پڑھ ہو، اتنا شعور ضرور رکھتی ہے کہ اقتدار میں رہنے والے سیاست دان جب قومی و عوامی خزانے سے ذاتی معاشی مفادات حاصل کریں گے-
ذاتی سرمائے میں اضافہ کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کریں گے، ہر بڑے سرکاری اجتماعی پروجیکٹ میں سے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے کمیشن لیں گے ، جس میں عوام کو کچھ نہیں ملتا –
عوام اور پارٹیوں کے نچلی سطح کے کارکنان جب کسی تکلیف میں ہوتے ہیں ،تو اس وقت پارٹی لیڈرز ان سے منہ موڑ لیتے ہیں –
جب یہ بڑے سیاستدان اپنی ذاتی کرپشن ، اور ذاتی معاشی جرائم کے باعث قانون اور احتساب کے نرغے میں آتے ہیں ، تو پھر کیوں کر عام عوام ، عام سیاسی کارکن ان کے لیے ملکی سیکورٹی اداروں کے سامنے کھڑے ہوں –
سب سے تکلیف دہ یہ بات ہے کہ جو لوگ اپنی نوجوانی کے دور میں 70 کی دھائی میں سرمایہ دار نظام کے خلاف ،کمیونسٹ نظریات کے حق میں کسی سیاسی تحریک کا حصہ رہے ، یا ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جدوجہد میں حصہ دار رہے وہ ابھی تک ذہنی طور اسی 70 کی دھائی کی سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں، تیسری دنیا یا پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سیاست ، جمہوریت کو پروان چڑھنے نہیں دیتی ، پاکستانی سیاست دانوں پر احتساب کے نام پر ظلم کیا جا رہا ہے ، لیکن اگر انہی ان جرائم پیشہ سیاست دانوں سے یہ پوچھا جائے کہ مانا کہ 70 کی دھائی میں پیپلزپارٹی سوشلسٹ نظریات کی پارٹی تھی ، اب پیپلزپارٹی کا کیا نظریہ ہے ؟ تو آج کی پیپلزپارٹی اپنے سیاسی نظریے پر کلئیر نہیں نظر آئیں گی ، یہی حال مسلم لیگ ن کا ہے –
یہی 70 کی دھائی کے کارکنان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستانی سیاسی میدان میں 2 بڑی پارٹیوں کے سربراہان سیاست برائے خدمت نہیں کرتے ، بلکہ سیاست برائے سرمایہ کاری کرتے ہیں ، جس سے ان کے حکومتی ادوار میں عوام کو اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی کم دیکھنے کو ملی ، مگر ان دونوں پارٹیوں کے سربراہان کے خاندان، ان کے اردگرد کے کرونیز 10 سالوں کے اندر لاکھوں روپے سے ارب پتی ، ارب سے کھرب پتی بن گئے ،اس لیے اگر ملکی اعلی عدالتوں نے بڑے لوگوں کے وائٹ کلر جرائم پر ہاتھ ڈالا ہے ، اور بڑے لوگ احتساب کے کٹہرے میں آنے لگے ہیں تو اس کو جانبدارانہ کاروائی کہنا ،یا یک طرفہ احتساب کا نام دینا درست نہیں ، بلکہ اس احتسابی عمل کو سپورٹ کیا جائے ، امید رکھے کہ جس کسی نے بھی سیاست یا سرکار میں آکر لوٹ مار کی وہ اب سزا ، احتسابی عمل سے بچ کر نہیں جائے گا –
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ملکی پارلیمان ، منتخب حکمران ملک کی ہر پالیسی بنانے کے ذمہ دار ہیں ،کیونکہ ان کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے ، اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے ، لیکن آج کی دنیا کے پیچیدہ خارجی ، دفاعی معاملات پر منتخب حکومت کو ملکی سیکورٹی اداروں سے مل کر خارجہ ، دفاعی پالیسی بنانا پڑ رہا ہے تو اس میں کیا ہرج ہے ، کیونکہ دونوں ایشوز پر پاکستان کے سیکورٹی ادارے سال ہا سال ان پر کام کررہے ہیں ، بلکہ عالمی دنیا میں بڑے ممالک امریکہ ، روس ، برطانیہ ، جرمنی بھی اپنی خارجہ ، دفاعی پالیسی اپنے سیکورٹی ، خارجی پروفیشنل اداروں ، لوگوں سے مل کر ترتیب دیتے ہیں –