(تحریر، محمد طارق )
جمہوری نظام کے خلاف سب سے بڑی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ نظام اپنی مقررہ مدت میں مطلوبہ نتائج نہیں دیتا ، نہ ہی دوران ٹرم موثر کارکردگی دکھاتا ہے ، جبکہ آٹوکریسی ، شخصی آمرانہ نظام دوران حکومت بہتر کارکردگی دکھاتا ہے ، آمرانہ نظام میں بڑے مسائل حل کرنے کے فیصلے جلد کئے جاتے ہیں ، ان فیصلوں پر عمل اسی وقت شروع ہو جاتا ہے ،اس لیے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ بہتر نظام ہے –
آمرانہ نظام شہریوں کو چند مادی سہولیات فراہم کرنے کے باوجود جمہوری نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، بلکہ آمرانہ نظام میں موثر کارکردگی کا مفروضہ اصل میں خام خیالی کے سوا کچھ نہیں –
جمہوری نظام حکومت میں سیاسی ، انتظامی طاقت کا سرچشمہ عام شہری ہوتا ہے ،جہاں شہری کے ساتھ ہر وقت برابری سے پیش آیا جاتاہے ، جہاں اجتماعی فیصلہ سازی منصفانہ طریقہ کار سے عمل میں لائی جاتی ہے ، موثر کارکردگی ، خوشحالی ، جمہوری نظام عمل سے آتی ہے ، اس کارکردگی ، خوشحالی کا عملی نمونہ آپ شمالی یورپ ، سیکنڈی نیون ممالک کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں ،جہاں پر فی کس آمدنی ، فی کس پیداواری کارکردگی دنیا میں پہلے نمبر پرہے –
جمہوری نظام ، آمرانہ نظام میں موثر کارکردگی کے اعدادوشمار کا تقابل کریں ، تو جمہوری نظام میں حکومتی کارکردگی کا انڈکس ، کارکردگی پوائنٹ ٹیبل پر پہلے نمبروں پر ہوگا ، جیسے ملک امریکہ بمقابلہ روس ، چین دیکھ لیں ، یا آسٹریلیا بمقابلہ کازکستان دیکھ لیں
جمہوریت میں جن نمائندوں کو فیصلہ کرنے کا حق دیا جاتا ہے ، وہ بڑی محنت، سخت مقابلے کے بعد اس پوزیشن میں پہنچتے ہیں، یہ منتخب نمائندے خود مختار عوام، آزاد میڈیا ، آزاد عدلیہ کے احتسابی عمل کے سائے میں اپنا کام جاری رکھنے پہ مجبور ہوتے ہیں-
دوسری طرف آٹوکریسی ، آمرانہ نظام میں فیصلہ کرنے والے لوگ آمر حکمرانوں کی خوشامد اور حکمرانوں کی خواہشات کو سپورٹ کرتے ہوئے اقتدار کا حصہ بنتے ہیں ، اس نظام میں اقتدار پر براجمان طبقے کو کسی احتسابی ردعمل کا کوئی خوف نہیں ہوتا، کیونکہ احتساب ، انصاف کے سب ادارے حکومتی حکم نامے کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں ، جب معاشرے میں عام لوگوں کے پاس فیصلہ سازی کے اختیارات نہیں ہونگے ، انصاف جانبدار ہوگا، مزدور کی پیشہ ورانہ کارکردگی حکمران طبقہ کو خوش کرنے میں لگی ہوگی ، اس وقت ملکی پیداوار کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہو جائیگی – جس سے ملک مضبوط نظام حکومت رکھنے کے باوجود معاشی ، ثقافتی ، انسانی وسائل کی ترقی کی لائن میں آخری نمبروں پر کھڑا دکھائی دے گا –