کسی ملک میں جب اجتماعی نظام جمہوری روایات ، اقدار کے تحت چل رہا ہوگا ، وہاں شہری اجتماعی معاملات میں ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کر رہے ہونگے ، ملکی نظام شہری کو ہر قسم کے حقوق کی فراہمی کرے گا –شہری کو معاشرے میں باوقار زندگی گذرانے کے تمام مواقع فراہم ہونگے ، شہری اجتماعی نظام ، حکومتی پالیسیاں بنانے میں اپنا کردار کسی خوف ، کسی دباؤ کے بغیر کرے گا ، شہری ہر وقت اپنے آپ کو معاشرے کا اہم رکن سمجھے گا ، اسے ہر وقت اجتماعی معاملات کی معلومات حاصل رہی گی ، وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی وقت بھی دوسرے شہریوں کے ساتھ مل کر متفقہ پلیٹ فارم تشکیل دے سکتا ہے-
جب کسی شہری کو کسی نظام کے تحت حقوق ملتے ہیں ،تو پھر وہی نظام شہری سے کچھ ذمہ داریوں کی توقع رکھتا ہے ، کہ اپنے حقوق لینے کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھے ، یعنی ایک شہری اس وقت آزاد ، کسی رکاوٹ کے بغیر زندگی گذارے سکے گا ، جب وہ دوسروں کی زندگی میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈالے گا ،نہ ہی کسی دوسرے شہری کی آزادی میں رکاوٹ بنے گا –
جمہوری نظام میں زندگی گذارنے والے شہری پر لازم ہوتا ہے کہ وہ سرگرم ہو کر حکومتی پالیسیاں بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ، شہری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی معاملات سے اپنے آپ کو باخبر رکھے ، شہری جمہوری عمل ، یعنی انتخابات میں اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے بھرپور طریقے سے شرکت کرے –
دوسری طرف جہاں آٹوکریسی ، آمرانہ نظام ہوگا ، وہاں پر شہری کو ایک بے جان شئے سمجھا جائے گا ، شہری غلام ہونگے ان پر فیصلے طاقت کے ذریعے ٹھونسیں جائنگے ، یہاں پر شہری طاقتور کے رحم وکرم پر ہوگا ، شہری کو شخصی آزادی ، بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا –