ووٹ کا ڈبہ [بیلٹ بکس] سب کے لیے برابر ، عورت ہو یا مرد ، غریب ہو یا امیر ، مزدور ہو یا آجر ، انتخابات کے دن ہر شہری کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے ،کسی ایک کا ووٹ کسی دوسرے کے ووٹ سے برتر یا کم تر نہیں ، سب ووٹرز کے ووٹ کی اہمیت ایک جیسی ، ووٹ گنتے وقت سب کی طاقت برابر ، یہی مساواتی عمل شہریوں کو احساس دلاتا ہے کہ جمہوری نظام میں ہر شہری کو آزادنہ طور پر ، برابری کی بنیاد پر اجتماعی فیصلہ سازی میں شریک ہونے کا اختیار ملتا ہے ،اسی لیے جمہوری معاشروں میں حکومتی پالیسیاں رائے عامہ کی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہیں –
جمہوری نظام میں معاشی عدم مساوات اور کئی دوسرے عدم مساواتی عمل، سیاسی مساوات کے ساتھ ساتھ برابر چل رہے ہوتے ہیں ، جیسے کسی ملک میں ایک ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈر کے تخلیقی علمی مقالے دنیا کے مشہور جرائد میں شائع ہورہے ہوتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف اسی ملک میں نیا آباد ہونے والا باشندہ ابھی مقامی زبان سیکھ رہا ہوتا ہے ، عام زندگی کے روز مرہ معاملات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والا شہری معاشرے میں بنسبت نئے آباد ہوئے والے شہری سے زیادہ اہمیت رکھے گا، لیکن ووٹ ڈالنے کے وقت دونوں افراد کی اہمیت ایک جیسی ہوگی-
ساتھ ہی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معاشرے میں کسی بھی قسم کی عدم مساوات مزید عدم مساوات کو فروغ دیتی ہے ، ان عدم مساواتی روایات کا قطعی یہ مطلب بھی نہیں کہ ملک میں جمہوری مساوات نہیں ہے ، بلکہ جمہوری نظام اپنے مساواتی اصولوں کے مطابق ، ہر شہری کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق، ہر سطح پر برابری کے مواقع فراہم کر رہا ہوتا ہے –
جمہوری نظام حکومت میں بقائے باہمی کے بنیادی اصولوں کے مطابق سیاسی برابری ، سیاسی مساوات ہمشیہ موجود رہتی ہے ، اسی لیے عدالتی انصاف پر تحقیق کرنے والے محققین کی نظر میں شہریوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں مساوات پر مبنی جمہوری نظام چاہیے ، یا سیاسی وانتظامی طاقت ، اور ملکی سرمائے پر فیصلہ سازی کا اختیار صرف مخصوص طبقے کے پاس رہے –