( تحریر، محمد طارق )
آپ اگر ناروے میں رہ رہے رہیں اور اپنے مذہبی عقائد ، مشرقی تہذیب کی وجہ سے مخالف جنس سے ہاتھ نہیں ملانا چاہ رہے تو پھر روز مرہ زندگی میں اکثریتی آبادی سے منفی رویوں کا سامنا کرنے کےلیے تیار رہیں-
نارویجین معاشرے میں کسی بھی جگہ جہاں انسان آپس میں کوئی اجتماعی تعلق رکھتے ہیں ، وہاں پر کسی مرد کا کسی خاتون سے ، کسی خاتون کا مرد سے ہاتھ نہ ملانا جرم قرار دے دیا گیا، مخالف جنس سے ہاتھ نہ ملانے سے آپ کو نوکری سے بھی نکالا جاسکتا ، سماجی ، سیاسی پلیٹ فارم کی انتظامی سرگرمیوں سے بھی آپ کی چھٹی کرائی جاسکتی ہے –
یہ تہذیبی و ثقافتی ٹکراو اس وقت مقامی میڈیا ، سیاست دانوں ، سماجی حلقوں میں بڑا اہم ایشو بنا ہوا ہے – اس ایشو کی ابتداء 3 ، 4 دن پہلے ہوئی جب مقامی انٹی تعصب ٹربیونل نے ایک مسلمان کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے میں مخالف فریق کے حق میں فیصلہ سنا دیا –
اس سارے قضیے کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک بے روزگار مسلمان مرد جو سوشل بینفیٹ، بے روزگاری الاؤنس پر اپنی زندگی بسر کر رہا تھا ، اس کو مقامی سرکاری روزگار محکمے نے ایک ہائی سکول میں قلیل مدتی ، استاد کی نوکری دلوا دی ، موصوف نے پہلے دن ہی کام پر جا کر اپنی خواتین کولیگس سے تعارفی ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا ، اس مرد مسلمان رویے کو سکول انتظامیہ نے اچھا نہ سمجھا اور نہ ہی اس وقت نئے سکول مدرس سے کوئی شکایت کی ، بلکہ اس مسلمان مرد مدرس کو قلیل مدتی معاہدے پر نوکری دے دی ، سکول انتظامیہ کے خیال کے مطابق وقت کے ساتھ یہ استاد آہستہ آہستہ سکول کام کے ماحول میں ایڈجسٹ کر جائے گا اور خواتین کولیگس سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے گا ، لیکن مرد مسلمان استاد اپنے کٹر ، انتہا پسندانہ مذہبی رویے کی وجہ سے مقامی سکول ماحول میں ایڈجسٹ نہ کرسکا ، اور اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کسی بھی سکول مینٹگ یا ورکنگ اجلاس میں خواتین کولیگس سے ہاتھ ملانے سے انکاری رہا-
اس استاد کے اس انتہا پسندانہ روئیے کو دیکھتے ہوئے سکول انتظامیہ نے قلیل مدتی معاہدہ ختم ہونے پر اس کو مزید کام دینے سے انکار کر دیا ، حالانکہ سکول کا کام اس نے بڑے احسن طریقے سے کیا ، جس کی تعریف سکول انتظامیہ بھی کررہی تھی ، دوسری طرف کام نہ ہونے کی وجہ سے اس مرد مسلمان بےروزگار کو دوبارہ مقامی سرکاری روزگار ادارے سے رجوع کرنا پڑا، روزگار ادارے نے چند دن بعد ہی اس کے لئے ایک اور کام ڈھونڈ نکالا ، اس نئے کام کو دیکھ کر اس بے روزگار مرد مسلمان نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دلیل دیتا رہا کہ یہ نیا کام اس کے معیار کے مطابق نہیں ، بلکہ سکول کا کام اس کی تعلیم ، تجربے کے مطابق ہے ، اس لیے مقامی روزگار ادارہ سکول انتظامیہ سے دوبارہ رابطہ کرکے اسے استاد ڈیوٹی پر بحال کروائے ، سرکاری روزگار ادارہ اس کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ سکول انتظامیہ ایک خود مختار ادارہ ہے ، اس سلسلے میں وہ اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے –
مقامی سماجی ، تہذیبی اقدار میں ایڈجسٹ نہ ہونے ، دوسری طرف سرکاری روزگار ادارے سے ایک اور نئے کام کی آفر کو انکار کرنے پر اسے نہ صرف ایک طرف تنخواہ سے ہاتھ دھونا پڑا ، ساتھ ہی دوسری طرف سرکاری روزگار ادارے نے اس کا سوشل بینفیٹ الاوئنس بھی روک دیا –
سرکاری سکول ، سرکاری روزگار ادارے کی ان کارروائیوں سے یہ بے روزگار مسلمان مرد انتہائی دلبرداشتہ ہوا ، اپنے لیے انصاف کے حصول کے لیے اس نے ان دونوں اداروں سے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا، اور قومی انٹی تعصب ٹربیونل میں دونوں اداروں کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ، دائر مقدمے میں اس نے موقف اختیار کیا کہ سرکاری اداروں نے اقلیتی مذہب سے تعلق کی بنا پر اس کے ساتھ انتہائی زیادتی کی ہے ، بڑا متعصبانہ برتاؤ کیا ہے ، جس کی وجہ سے اسے نہ صرف نوکری حاصل کرنے میں دشواری ہورہی ہے، بلکہ وہ انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہے ، اس لیے ٹربیونل اس کے ساتھ انصاف کرے –
قومی انٹی تعصب ٹربیونل کے 5 رکنی بنچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مقدمے کا فیصلہ سرکاری اداروں کے حق میں کردیا، ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مذہبی قدامت پسند روایات نارویجین مساواتی اقدار کے ہم پلہ کبھی نہیں ہوسکتی ، اس لیے اس بے روزگار مسلمان مرد کے ساتھ کسی بھی قسم کا متعصبانہ برتاؤ نہیں کیا گیا، دونوں سرکاری اداروں نے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے روٹین کے مطابق کاروائی کی ہے-
جیسے ہی اس فیصلے کی خبر پبلک ہوئی اس وقت سے مقامی آبادی، سماجیات ، سیاست کے دانشور ، میڈیا ، کئی تارکین وطن ، کئی مسلمان تارکین وطن قومی انٹی تعصب ٹربیونل کے اس فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دے رہے ہیں ، کہ ٹربیونل نے بالکل صحیح فیصلہ دیا ، زیادہ تر لوگوں کا موقف ہے کہ ناروے ایک سیکولر اسٹیٹ ہے ، اس ملک میں سارے انسان برابر ہیں، جنس، مذہب ، رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان سے برتر یا کم تر نہیں –
مقامی بڑی اخبار آفتن پوستن کی مشہور سیاسی تجزیہ نگار انگون اووک لاند نے ٹربیونل فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مخالف جنس سے ہاتھ ملانے کے معاملے میں خود مسلمانوں کے اندر کوئی اتفاق نہیں ، نہ ہی اس معاملے میں اسلامی قوانین میں کوئی واضح لائن ہے ، اس لیے انٹی تعصب ٹربیونل کا فیصلہ جدید مغربی معاشروں کی اقدار کے عین مطابق ہے –