بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ، سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں نے دوسرے علاقوں سے دہشت گردی بلوچستان میں درآمد کی ہے۔
قیام پاکستان کے 70 برس مکمل ہونے کے تناظر میں پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیاستدانوں کے ساتھ انٹرویوز پر مشتمل بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز، وژن پاکستان میں بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو سمجھنا کوئی ریاضی کا سوال نہیں، وہاں سب جانتے ہیں کہ ’مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والی تنظیموں کے لوگ کھلے عام گھوم پھر سکتے ہیں اور ان کے پاس اداروں کے (شناختی) کارڈ بھی ہیں۔ ان کو لائسنس ٹُو کِل دیا ہوا ہے۔‘
ابق وزیر اعلیٰ کے مطابق وہ ایسی تصاویر دکھا سکتے ہیں، جن میں مطلوبہ جرائم پیشہ دہشت گرد، اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ بغل گیر کھڑے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انڈیا (بلوچستان میں) ملوث نہیں ہوگا، وہ ہوگا، لیکن اسے یہ موقع بھی ہم نے دیا ہے، اگر ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو وہ بھی کریں گے۔ یہ دونوں طرف سے ہورہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے۔‘
سردار مینگل نے سوال کیا کہ ’ہم نے کیا افغانستان میں مداخلت نہیں کی؟ کیا ہم اس سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ کیا مجاہدین ہم نے نہیں پالے، کیا طالبان ہم نے نہیں پالے؟ کیا یہ اسلام کے نام پر تھا یا پاکستان کے لیے تھا یا پھر ڈالروں کی وجہ سے تھا۔ ہم نے ڈالروں کی وجہ سے پاکستان کو بیچ ڈالا۔‘
صوبے میں حالات کیسے بہتر کیے جاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ شدت پسندوں سے بات کرنا چاہیے۔ ’جب آئی آر اے اور برطانیہ کی حکومت بات کر سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟‘
بقول اختر مینگل پاکستان کی سیاسی قیادت بہت بے اختیار ہے، طاقتور صرف اسٹیبلشمینٹ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو اپنا حصہ نہیں سمجھا، اسے صرف ایک کالونی سمجھا ہے اسے پنجاب کی کالونی سمجھا ہے، جب تک بلوچستان کو حصہ نہیں سمجھا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کو اب تک تو اللہ ہی بچاتا آیا ہے، لیکن جیسے حالات ہیں پتا نہیں وہ بھی بچا پائے گا یا نہیں؟ اگر ملک کو ساتھ رکھنا ہے تو پھر حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینا پڑیں گے۔‘
ملک سے متعلق محمد علی جناح کے وژن پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 70 برسوں میں جتنے بھی حکمران آئے چاہے وہ ووٹ سے آئے یا بندوق کے ذریعے، ان سب نے جناح صاحب کے وژن کو مسخ ہی کیا ہے۔
ان کے بقول جناح کے وژن میں سنہ 1940 کی قرارداد تھی، جس میں تمام صوبوں کو خود مختاری دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا آج کے پاکستان میں انھیں وہ خود مختاری حاصل ہے۔ صوبوں کو اگر حیثیت دی جاتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ جناح صاحب کے وژن کی سکرات جناح صاحب کی وفات سے شروع ہوگئی تھی اور موت پاکستان کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ باعث مجبوری ریاست کے جغرافیہ کو تسلیم کرتے ہیں، سیاستدان بھی مجبور ہیں، صوبے بھی مجبور ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کی ذمہ دار وہ جماعتیں، وہ ادارے اور حکومتیں ہیں جنھوں نے وہاں نوجوانوں کو مایوسی کی اس حد تک دھکیلا ہے جو وہ اب علیحدگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
سردار اختر مینگل نے بلوچستان میں شدت پسندوں کی جانب سے معصوم لوگوں کو قتل کیے جانے کی شدید مذمت کی۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاستی سرگرمی کو تباہ کیا گیا ہے، سیاسی کارکنوں کو غائب کیا گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان انتہائی مایوس ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب تک اسٹیبلشمینٹ اپنی سوچ نہیں بدلے گی، پاکستان تاریکی کی طرف جائے گا۔ ’مجھے پاکستان میں تاریکی نظر آرہی ہے، کوئی قیادت نہیں جو روشنی کی جانب لے جائے۔‘
خبر: بی بی سی اردو