لیکن اسلامی ملک ہونے کے ناطے یہاں پر مساجد سے 5 وقت کی اذان بھی سنائی دیتی ہے – بلکہ ہر مسجد میں ہر نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے – نماز جمعہ کے وقت بڑی مساجد میں کافی رش ہوتا ہے ، ایک جمعہ ہمیں بھی شہر کی مقامی مسجد میں ادا کرنے کا موقعہ ملا- ہم جمعہ کے روز جب مسجد میں داخل ہوئے تو منبر پر کوئی عالم ، امام موجود نہیں تھا ، صرف مسجد کے اندرونی اسپیکر سے جمعہ کے خطاب کی آوازیں آرہی تھی ، نماز جمعہ کے وقت سے 10 منٹ پہلے امام صاحب اپنے حجرے سے نیچے مثلئے پر آگئے ، ان کے سامنے دوسری اذان دی گئی ، امام صاحب نے خطبہ جمعہ پڑھا، امامت کی ، آخر میں مقامی زبان میں دعا کی اور نمازی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے-
نماز کے بعد چند ترکش دوستوں سے معلومات حاصل کی کہ بجائے امام صاحب کے جمعہ کے خطاب کے اسپیکر سے جمعہ کا خطاب دیا جارہا تھا – تو وہ کہنے لگے کہ ترکی کے ہر ضلع میں ترک حکومت نے ایک امام کو ایک ضلع کی مسجد میں تعینات کیاہے ، جو ترک حکومت کا لکھا ہوا جمعہ کا خطبہ دیتا ہے، یہ خطاب بذریعہ اسٹیلائٹ ضلع کی ہر مسجد سے برائےراست سنایا جاتا ہے – کسی بھی مقامی امام کا جمعہ خطبہ اپنے طور پر دینا ، قانون جرم ہے –
ترکی میں پرائیویٹ مدارس اور پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بہت کم ہے- سرکاری سکولوں کا معیار بہترین ہے ، زیادہ تر مذہبی مدارس کو مقامی نظام تعلیم میں مدضم کردیا گیا ہے ، چند ایک مدارس جو ابھی تک پرائیویٹ ہیں ان پر ترک حکومت کی کڑی نظر ہے –
شعبہ صحت کی حالت ملی جلی ہے ، جن ضلعوں کی معاشی صورتحال بہتر ہے ان ضلعوں میں سرکاری ہسپتال بہتر ہیں، بلکہ ان کے ہاں ہر مقامی باشندے کو مفت کی صحت سہولت دستیاب ہے –
ترکی میں بھی بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے ، بلکہ بجلی فی یونٹ کے حساب سے مہنگی ہے ، حکومتی عمارات اور نجی عمارات پر سولر پینلز اور پانی کی ٹینکیاں ہر جگہ نظر آئیگی ، سولر پانی ٹینکی پینلز سے پانی کو گرم کیا جاتا ہے ، لیکن سولر پینلز سے بجلی حاصل کرنے کا رحجان بہت کم ہے- اس سلسلے میں جب کچھ مقامی انرجی ماہرین سے بات ہوئی تو وہ بتانے لگے کہ ترک معاشرہ دوسرے تیسری دنیا کی ممالک کی طرح نئی ایجادات پر شروع میں کم اعتبار کرتاہے، جب وقت گذرجاتاہے اس وقت وہ اس پر کام کرنا شروع کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ترکی عوام کا معاشی نقصان کافی ہوتا ہے – ترکی میں سورج سے
انرجی کا فلو بنسبت یورپی ممالک کے 70 % زیادہ ہے – بقول ترکش انرجی ماہرین کے مطابق اتنے زیادہ انرجی مواقع ہو نے کے باوجود ان سے فائدہ نہ اٹھانا معاشرتی جہالت کے مترادف ہے ، ساتھ ہی حکومتی پالیسی سازوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ترک عوام کو کم بجلی میسر ہونے کے ساتھ ساتھ ترک صنعت ، تجارت کو بھی نقصان ہو رہا ہے –
ایردغان حکومت کا سب سے بڑا مثبت کام پورے ترکی کو صاف ستھرا رکھنا اور اردگرد کے ماحول کو آلودگی سے بچانا ہے –
مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ایردغان حکومت سے پہلے ترکی کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں گندگی ، کوڑے کے ڈھیر ہوا کرتے تھے ، ترک عوام بھی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کوڑا گلیوں سڑکوں پر پھینک دیتی تھی – ایردغان حکومت نے آتے ہی ترکی کے ہر ضلع میں سب سے پہلے مقامی میڈیا میں گندگی، کوڑے کو سرعام پھینکنے سے پیدا ہونے والے ذاتی و اجتماعی نقصانات پر بھرپور مہم چلائی، اس کے اسی میڈیا سے آگاہی مہم شروع کی کہ کسی طرح ہر شہری مقامی بلدیہ کے ساتھ مل کر اپنے اردگرد ماحول کو صاف رکھ سکتا ہے ، کوڑے کو پراپر ٹکھانے لگانے سے وہ اپنا اور حکومت کا کتنا سرمایہ بچا سکتے ہیں – ترکی سنٹرل حکومت اور مقامی بلدیہ نے گندگی، کوڑے کرکٹ کو اپنی پہلی ترجیح دیتے ہوئے اس پر زیادہ بجٹ مختص کیا، ہر بلدیہ میں ورکرز کو اچھی تنخواہیں مہیا کی ، ہر قسم کی جدید مشینری دی، ہر شہر میں ایک ڈمپنگ سائٹ بناکر دی ، تاکہ جب شہر کا کوڑا اکھٹا ہو کر آئے تو اس کو پراپر طور پر تلف کرنے کے لیے جگہ موجود ہو- انہی حکومتی کوششوں اور مقامی آبادی کے تعاون سے ترکی کے شہر ، گلیاں ، سڑکیں، خالی پلائٹس صاف ستھرے ہیں – اس لیے ایردغان حکومت واقعی تعریف کی مستحق ہے ، جس نے اتنے بڑے بنیادی مسئلے کو حل کر دیا -سیاسی میدان میں ترک معاشرے کو کافی چیلنجز ہیں، بلکہ ترک معاشرہ بہت زیادہ تقسیم ہے – ایک طرف اسلامسٹوں کا زور ہے ، تو دوسری طرف سیکولر ڈیموکریٹس بھی پورے اعتماد سے ترک عوام کے سامنے اپنا سیاسی ایجنڈا پیش کر رہے ہیں – اکثر شہر ی باشندوں سے یہ سننے کو ملا کہ ایردغان مذہب کو استعمال کرتے ہوئے نیا صدام حسین بننے کی کوشش کر رہا ہے ، جو ان کے بقول ترکش معاشرے کو تصادم کی طرف لے جائے گا -موجودہ حکومت ترک نے سیاسی مظاہروں، تقاریر پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں –
پچھلے سال فوجی قبضہ کی کوشش نے ترکی معاشیات پر گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں، مقامی سرمایہ کار سیاسی بےیقینی کی وجہ سے نئی سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں – ٹورسٹ صنعت بھی مندے کا شکار، کیونکہ اس سال ابھی تک 1 ملین سے کم ٹورسٹ نے ترکی کا رخ کیا ہے ، حالانکہ عام حالات میں ان دنوں میں 3 سے 4 ملین ٹورسٹ ترکی میں ہوتا تھا –
ترک مقامی باشندے ملنسار ، مہمان نواز ہیں ، خاص طور پر پاکستانی لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت ہی اچھا ہے – ترکی میں رہتے ہوئے لفظ ابی بہت سنا ، جس کا مطلب بھائی تھا ، اس لیے ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ ابی ترکی اپنی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اپنے سیاسی چلینجز بغیر کسی بڑے تصادم کے حل کر لیں گے –