اسلام آباد ہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کو دوران ایف آئی اے حکام نےاعتراف کیا کہ جن 5 بلاگرز پر انٹر نیٹ پر گستاخانہ مواد شائع کرنے کا الزام لگا ان کے خلاف ثبوت نہیں ملے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیس کی سماعت کے موقع پر صحافیوں سے سوال کیا کہ آپ بتائیں جھوٹی خبر دینے کی کیا سزا ہے؟ جن کے خلاف شواہد نہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟
سماعت کےدوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے شکوہ کیا کہ صرف 15 تفتیشی افسر ہیں، جبکہ سائبر کرائم کی 12 ہزار شکایات موصول ہوئیں ہیں۔ حکام کا مزید کہنا تھا کہ سہولیات کے فقدان کے باوجود کام جاری ہے۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ بیرون ملک فرار ہونے والے 4 ملزمان کو واپس لانے کیلئے انٹرپول سے رابطہ کرلیا ہے، جبکہ 4 گرفتار ملزمان سے تفتیش مکمل کرکے ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کردیا گیا ہے۔
سماعت کے موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ جن کے خلاف شواہد نہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔
اس موقع پر عدالت نے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق قانون سازی اور کارروائی کی تفصیلات طلب کرلیں۔
خبر: جنگ