(تحریر: محمد زابر سعید بدر)
آج سے ٹھیک 46 برس پہلے انسانی تاریخ کا عجب واقعہ ہوا کہ کسی ملک کی اکثریت نے انتہائی جدوجہد سے حاصل کردہ مملکت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہو۔
ستر برس پہلے کہا گیا تھا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے جو چند لمحے قبل تک آل انڈیا ریڈیو تھا اور 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ ریڈیو سے یہ اعلان نشر ہو رہا تھا کہ یہ ریڈیو بنگلا دیش ہے۔
قوموں کی زندگی میں بعض لمحے بہت اہم ہو جاتے ہیں،یہ لمحے نہیں بلکہ صدیوں کا قرض ہوتے ہیں جو ہم اتارتے رہتے ہیں۔
معروف ماہر تعلیم مسعود مفتی نے 15 دسمبر 1971 ءکی شام کو ڈھاکا میں پاکستان کا پرچم غروب ہوتے دیکھا اور ان کیفیات کو اپنی کتاب لمحے میں سمو دیا۔
پیارے دوست ظہیر بدر بتاتے ہیں کہ 1990 ء میں جب وہ ایف سی کالج میں پڑھاتے تھے تو 16 دسمبر کے اداس دن انہوں نے معروف دانشور اور انگریزی کے استادسجاد حیدر ملک سے پوچھا کہ قبلہ! آپ کو یاد ہے کہ آج کیا تاریخ ہے؟ پروفیسر صاحب نے بہت گہری نظروں سے مجھے دیکھا اور گویا ہوئے کہ میں گورڈن کالج راولپنڈی میں لیکچرار تھا جب اپنے گھر پہنچا تو میری اہلیہ نے میرا گریبان پکڑتے ہوئے ایک چیخ ماری اور کہا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے، وہ دن ہے اور آج کا دن وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔
میں وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں، میری اہلیہ آج بھی اسی کرب کی تصویر ہے، ملک صاحب کے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے آنکھوں سے آنسو نکل کر ان کے گالوں پر پھیل رہے تھے۔
زندہ قومیں سانحات سے سبق سیکھتی ہیں، جرمنی اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں لیکن ہم نے اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور مشرقی پاکستان کی یادوں کو اس طرح اپنی نئی نسل کی ذہنوں سے نکال باہر کیا ہے، گویا اس سانحے کا کوئی وجود ہی نہیں۔
ہم نے کبھی ان اسباب کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جس سے ہم کوئی سبق سیکھتے، ہم نے ایک دوسرے پر الزام لگائے لیکن اپنے سب سے زیادہ آبادی والے حصے کے جذبات کو نہ سمجھا حالانکہ برطانوی راج سے آزادی کی جنگ میں ان کا حصہ ہم سے کہیں زیادہ تھا۔
ہم نے ان کو اپنی کالونی بنانے کی کوشش کی جس کو ہمارے ازلی دشمن نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا، اب وہی غلطی ہم دوبارہ کر رہے ہیں، طاقت کے استعمال سے ملک قائم نہیں رہتے، سوویت یونین کے سیکڑوں ایٹم بم دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ دنیا کی سپر پاور ہوتے ہوئے بھی صفحہ ہستی سے نابود ہو گیا۔
نئی نسل سے حقائق چھپانے کی بجائے انہیں بتائیں کہ ہم نے کیا غلطیاں کیں تاکہ وہ ان کا اعادہ نہ کریں،یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ غلطیوں سے وہی سبق حاصل کرتے ہیں جو اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔
گزشتہ تین سال قبل 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے سانحے کو بھی ہم نہیں بھول پائیں گے، آج ہی کے دن معصوم طلباء اور اساتذہ کرام کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والا اور 71ء میں ملک کو لخت لخت کرنے والا دشمن ایک ہی ہے،بس اسے پہچاننے اور اپنی نسلوں کو ذہن نشین کرانے اور منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا مستقبل اور آئندہ نسل اس دشمن کے ان مذموم مقاصد اور حملوں سے محفوظ رہ سکے۔