This slideshow requires JavaScript.
(تحریر، محمد طارق )
دنیا میں بڑے بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال ملیں گے ، سرکاری ہسپتال حکومتیں سرکاری بجٹ سے تعمیر کرتے ہیں، اسی طرح پرائیویٹ خیراتی ، فری ہسپتال پرائیویٹ این جی اوز تعمیر کرتے ہیں ، پاکستان میں اکثر یہی خیراتی ہسپتال، خیراتی سکول و مدارس جو لوگوں کے دیے ہوئے فنڈز سے تعمیر ہوتے، چند عرصے کے بعد خیراتی سے بزنس میں شامل ہو جاتے ہیں، کیونکہ لانگ ٹرم میں بڑے فری ہسپتال خیراتی فنڈز سے اپنے اخراجات نہیں پورے کر سکتے، اس لیے فری پرائیویٹ ہسپتال کے بورڈ کو فیصلہ کرنا پڑھتا ہے کہ ہسپتال کے ضروری اخراجات کور کرنے کے لیے مریضوں سے معاوضہ لینا پڑےگا ۔
اس سے ہسپتال منافع بخش بزنس ماڈل کے طور پر چلنا شروع ہوجاتے ہیں، آخر میں ہسپتال کو شروع کرنے والے یا ان کی اولاد، دوست احباب ان اداروں پر قابض ہوکر ان خیراتی اداروں کو اپنی پراپرٹی بنا لیتے ہیں – لیکن النور ہسپتال پدھری پرائیویٹ سرمائے سے 2006 میں تعمیر ہوا ، 2007 سےاکتوبر2017تک اورسیزپاکستانیوں ، حکومتی اداروں اور السرورٹرسٹ ناروے کی فنڈنگ سے گاوں پدھری، تحصیل سوہاوہ ، ضلع جہلم کے نادار، غریب لوگوں کو مفت علاج کی سہولیات میسر کرتا رہا ، اس ہسپتال کی تعمیر میں 4 کنال زمین ، 4 کنال زمین کے ساتھ ہسپتال کی عمارت بنانے کے لیے پاکستانی 5 کروڑ روپے خرچ ہوئے ، ہسپتال کے یہ سارے تعیمراتی اخراجات السرورٹرسٹ ناروے ، پاکستان کے رو ح رواں افتخار احمد کیانی صاحب نے اپنی ذاتی جمع پونجی سے پورے کیے – جن میں پاکستان میں جمع شدہ رقم ، 2 ذاتی مکان ناروے میں فروخت کیے گئے۔ 2007 سے اکتوبر 2017 تک صرف ہسپتال کو چلانے کے لیے سالانہ پاکستانی 60 لاکھ روپے کے فنڈز درکار تھے، ان 60 لاکھ روپے کے سالانہ فنڈز کا بندوبست بڑی محنت، تگ ودو سے السرورٹرسٹ نے پرائیویٹ ڈونرز، اور انٹرنیشنل ڈونرز سے بڑی پروفیشنل اپروچ سے کیا – یعنی 10 سالوں میں ہسپتال کو چلانے کے لیے 6 کروڑ کی زائد رقم خرچ ہوئی – پاکستان کے دوردراز دیہاتی علاقوں میں اس طرح کا فلاحی کام کرنا انتہائی مشکل ہے ، شاید ہسپتال بنانا ، یا ہسپتال کی عمارت تعمیر کرنا اتنا مشکل کام نہ ہو ، ہسپتال کی عمارت کی تعمیر افتخار احمد کیانی صاحب نے 2- 3 سال میں اپنی جیب سے ہی مکمل کر دی تھی ۔
اصل کام شروع ہوتا ہے کہ مفت علاج کرنے کے لیے ہسپتال کو کیسا چلایا جائے؟ 2006 سے 2008 تک النور ہسپتال کو عام اورسیزپاکستانیوں کی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ ذاتی سرمائے سے ہسپتال کو چلایا گیا ، 2009 میں ہسپتال چلانے کے لیے السرورٹرسٹ کے بورڈ کو متحرک کیا گیا تاکہ وہ ہسپتال کو چلانے کے لیے جاری اخراجات کا انتظام کرے ، السرورٹرسٹ کی کوششوں سے السرورٹرسٹ کا نارویجین حکومتی ادارے نوراد (Norad) کے ساتھ 8 سالہ ڈونییشن کا معاہدہ طہ پا گیا جس کے تحت نوراد نے پہلے سال 50 ، 50 فی صد کلیے کے تحت السرورٹرسٹ کو النور ہسپتال چلانے اور دوسری سماجی خدمات کے لیے سالانہ 30 لاکھ روپے دیئے، جبکہ السرورٹرسٹ نے اپنے حصے کے 30 لاکھ روپے پرائیویٹ فنڈنگ، صدقات عام لوگوں سے جمع کئے ، اس طرح یہ سلسلہ 2010 سے لیکر 2017 تک نوراد السرورٹرسٹ کو سالانہ 80 % کے تحت السرورٹرسٹ کو فنڈز مہیا کرتا رہا ، بقیہ 20 % رقم السرورٹرسٹ پرائیویٹ ڈونرز اور اورسیزپاکستانیوں سے حاصل کرے کے اب تک النور ہسپتال کے جاری اخراجات پورا کرتا رہا- پاکستان کے پسماندہ علاقے میں النوررفاعی ہسپتال کو ہمشیہ چلتا رہنے کے لیے ہسپتال کے بانی افتخار احمد کیانی صاحب کے لیے بہت بڑا سوال تھا، کہ جب بیرون ممالک سے مستقبل میں ڈونییشن کی کمی ہو جائے گی ، ساتھ ہی ان کی اپنی بڑھتی عمر ہسپتال کے لیے اتنا وقت نہیں نکال سکے گی یا ان کی زندگی کے بعد کون اس ہسپتال کی دل لگی سے دیکھ بھال کرے گا – انہی سوچوں کی وجہ سے افتخار احمد کیانی صاحب نے پاکستان کے مختلف پرائیویٹ رفاعی ، مذہبی اداروں سے رابطہ کیا ، لیکن کسی بھی رفاعی ادارے نے النور ہسپتال کو لینے میں دلچسپی ظاہر نہ کی ، حالانکہ افتخار احمد کیانی صاحب اس چیز کی بھی گرانٹی دیتے تھے کہ جب تک ان کی زندگی ہوگی وہ معاشی طور پر ہسپتال کو مسلسل سپورٹ کریں گے ، زیادہ طور پر رفاعی، مذہبی اداروں نے النور ہسپتال کو لینے میں اس لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا کہ معاشی طور پر یہ نقصان کا ایگریمنٹ تھا ، ساتھ ہی النور ہسپتال کی لوکیشن جو جی ٹی روڈ سے 40 کلومیٹر اندر ایک دور دراز پسماندہ علاقے پدھری میں تھی نے بھی اہم کردار ادا کیا ، کیونکہ کسی بھی ادارے کا ملازم وہاں ملازمت کرنے سے کترا رہا تھا- اس کے ساتھ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ناروے میں جب بھی کسی فورم پر السرورٹرسٹ کی سماجی خدمات کا ذکر ہوا وہاں پر بھی السرورٹرسٹ ناروے نے کھل کر عام لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اس ادارے کو اپنا ادارہ سمجھے ، اور السرورٹرسٹ کے انتظامی بورڈ میں آکر نادار لوگوں کی مدد کرنے میں آگے بڑھے ، اس پیغام کی وجہ سے السرورٹرسٹ ناروے بورڈ میں مختلف اقوام کے لوگ مختلف انتظامی عہدوں پر مفت سروس دے رہے ہیں – ناروے میں عام لوگوں سے مضبوط معاشی و انتظامی تعاون کے باوجود افتخار احمد کیانی صاحب کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ پاکستان میں النور ہسپتال کو لمبے عرصے تک کیسے چلایا جائے ، ان سوچوں کو سوچتے، مختلف لوگوں سے آرا لیتے ہوئے افتخار احمد کیانی صاحب اس مسلئے کو پاکستان کی لوکل گورنمنٹ کے سامنے لے گئے ، جہاں پر ان کی پہلی میٹنگ ضلعی ڈپٹی کمشنر سے ہوئی اور اس میٹنگ میں النور ہسپتال کے متعلق معلومات ضلعی ڈپٹی کمشنر اور مقامی لوکل گورنمنٹ انتظامیہ کو دی گئی – اس میٹنگ کے بعد ڈپٹی کمشنر ضلع جہلم نے افتخار احمد کیانی صاحب سے وعدہ کیا کہ وہ النور ہسپتال کو حکومتی تحویل میں لینے کے لیے صوبائی محکمہ صحت اور صوبائی وزیر صحت سے رابطہ کریں گے ، اور چند دن کے اندر افتخار احمد کیانی صاحب کو اپ ڈیٹ کریں گے کہ آیا صوبائی محکمہ صحت النور ہسپتال
کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے یا کہ نہیں، ڈپٹی کمشنر ضلع جہلم کی خصوصی توجہ سے مقامی محکمہ صحت کے عملے نے النور ہسپتال آکر ہسپتال کا کام دیکھا ، ہسپتال کی لوکیشن اور عمارت کا سروے کرکے رپورٹ صوبائی محکمہ صحت اور صوبائی وزیر صحت کو بھیج دی ، اس رپورٹ کے کچھ عرصے بعد ضلعی محکمہ صحت نے السرورٹرسٹ اور افتخار احمد کیانی صاحب سے رابطہ کر کے یہ اطلاع دی کہ صوبائی محکمہ صحت النور ہسپتال کو سرکاری تحویل میں لینے کی خواہش رکھتا ہے ، کیونکہ صوبائی حکومت پنجاب کے منشور میں شامل ہے کہ عوام کو ان کے گھر کے نزدیک بنیادی صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں، اس طرح السرورٹرسٹ پاکستان اور حکومت پنجاب کے درمیان 2 سال مسلسل النور ہسپتال کو پرائیویٹ رفاعی ادارے سے سرکاری النور ہسپتال منتقلی تک مختلف اجلاس ہوتے رہے اور بالآخر 2017 کے وسط میں النور ہسپتال کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے ضلع جہلم کے محکمہ صحت نے السرورٹرسٹ سے معاہدے پر سائن کر دیے اور ساتھ ہی ٹائم ٹیبل دے دیا کہ ضلعی محکمہ صحت النور ہسپتال کا نومبر 2017 سے مکمل طور پر انچارج سنبھال لے گا – اس معاہدے کے تحت ہسپتال کے صحن کی 4 کنال زمین، ہسپتال کی عمارت، ہسپتال کا سارا سازوسامان السرورٹرسٹ نے حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا ، معاہدے کے تحت ہسپتال کا نام النور بنیادی مرکز صحت پدھری رکھا گیا، Basic Health Unit (BHU) النور ہسپتال سے النور بنیادی مرکز صحت بننے سے اب ہسپتال مضبوط حکومتی انتظامی ڈھانچے کے نیچے آگیا ہے ، اس سے نہ صرف اب یہ بنیادی مرکز صحت ہمشیہ کے لیے قائم رہے گا ، بلکہ علاقے کی عوام کے لیے روزگار بھی فراہم کرے گا- ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک کی تھیوری بھی کامیاب نظر آتی ہے کہ عوام کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنا حکومتوں کا کام ہے ، اس لیے لوگوں کو چاہئے کہ وہ رفاعی ادارے خود نہ بنائیں، بلکہ مقامی حکومتوں سے مل کر پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا ماڈل اپناتے ہوئے اجتماعی رفاعی ادارے بنائے یا پہلے سے چلتے ہوئے حکومتی اداروں کو بہتر کرنے میں مدد کریں – النور ہسپتال پدھری السرورٹرسٹ ناروے، پاکستان کا بنیادی صحت کا ایک مشکل پروجیکٹ تھا ، جو آخر کار حکومتی تحویل اور پدھری علاقے کی عوام کو سپرد کر دیا گیا – لیکن السرورٹرسٹ ناروے، پاکستان ، پاکستان کے دہی علاقوں میں اپنے دوسرے پروجیکٹس مستقبل میں بھی جاری رکھے گا ، جس میں خاص طور پر حفظان صحت اور ماحول کے بارے میں آگاہی مہم ، مقامی آبادی کو صاف پانی مہیا کرنا ، مقامی حکومتوں میں عوام کو با اختیار بنانا ، پر کام کررہا ہے – السرورٹرسٹ کو یہ اہم سنگ میل عبور کرنے پر اورسیزپاکستانیوں کی طرف سے بہت بہت مبارکباد، اس کے ساتھ افتخار احمد کیانی صاحب جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جنہوں نے ان دنوں اداروں النور ہسپتال اور السرورٹرسٹ کو واقع رفاعی ادارے بنانے میں اپنا سارا ذاتی سرمایہ ، اپنی زندگی کے 20 سال دے کر کلیدی کردار ادا کیا، ویل ڈن افتخار احمد کیانی صاحب۔