تحریر: علی اصغرشاہد
ہر سال کی طرح اس سال بھی ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کرسمس کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ رنگ برنگی بتیاں لگا کر مارکیٹیں بازار اور سڑکیں سجائ جا رہی ہیں۔ مارکیٹوں میں دوکاندارگاہک کو متوجہ کرنے کے لیے نت نئے طریقےتلاش کرتے ہیں۔ اس ہفتے شہر بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں نے” بلیک فرائڈے” کے نام سے لوٹ سیل کے
اشتہارات لگائے ہوے ہیں اور کئی کمپنیوں نے پورے ہفتے کو” بلیک فرائڈے ” قرار دے کر گاہکوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔
گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر سے انسانی حقوق کے علمبردار پرویز ایڈوکیٹ اور پروینا آھنگر ناروے تشریف لاے تھے۔ ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور بربریت کےخلاف ان دونوں کو جرات اور بے باکی کا “رافتو ایوارڈ ” ناروے کے دوسرے بڑے شہر برگن میں دیا گیا۔ اس میں سفیر پاکستان کے علاوہ کشمیر کونسل ناروے کے راہنما علی شاہنواز، معروف صحافی افضل بٹ اور ریسرچر دانشور سید سبطین شاہ نے شرکت کی۔ اس ایوارڈ کی میڈیا کوریج سے کشمیر کاز کو خاصہ فائدہ ہوا ہے۔
رافتو فاونڈیشن کے زیراہتمام ایک تقریب کا انعقاد اوسلو میں بھی ہوا۔ لیکن یہ بات نوٹ کی گئی کہ مہمانوں کو پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی سے بات نہیں کرنے دی گئی اور نہ ہی ان کے اعزار میں کشمیری یا پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے کسی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس ہفتے ” کشمیر بلیک ڈے” کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام سفارتخانہ پاکستان کے اندر کیا گیا جس کے مہمان خصوصی یورپین پارلیمنٹ کے رکن لنکاشائر یونیورسٹی کے لیکچرار مسٹر واجد خان تھے۔ایک دوست کا کہنا ہے کہ
اتنے لوگ نارویجین نیشنل اسمبلی یا فارن آفس کے سامنے کشمیریوں سے یکجہتی اور انڈیا کی بربریت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے کافی تھے۔
کیا ھی اچھا ھوتا کہ کشمیر سے متعلق اس طرح کی سرگرمی کسی اور پلیٹ فارم سے ھوتی اور “کشمیر بلیک ڈے ” کا نارویجین پبلک سے تعارف کرایا جاتا۔۔
سفارتخانہ کے پلیٹ فارم سے ھی اگر کرنا تھا تو کچھ دوسرے سفارت خانے اور نارویجین اداروں سے لوگوں کو دعوت بھی دی جاسکتی تھی۔