پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی مخلوط حکومت سے آفتاب احمد خان شیر پاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی کی علیحدگی اور حکومت میں شامل دوسری پارٹی جماعت اسلامی کی طرف سے خیبر بنک کے معاملے پر حکومت کو ڈیڈلائن دینے کے بعد بظاہر وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔
قومی وطن پارٹی کی حکومت سے بےدخلی کے بعد گذشتہ روز پہلی مرتبہ ان کی طرف سے واضح طور پر صوبے میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق موقف سامنے آیا ہے۔
پارٹی کے صوبائی ترجمان طارق خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت کے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے ہوئے ہیں اور وہ صوبائی حکومت کی تبدیلی کی صورت میں دیگر جماعتوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔
انھوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ان کی جماعت کے تین ایم پیز نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ پانچ دن قبل تحریک انصاف کے دو صوبائی وزرا شاہ فرمان اور علی امین گنڈاپور نے اچانک اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران قومی وطن پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے وزرا کا موقف تھا کہ یہ اتحاد پارٹی سربراہ عمران خان کے کہنے پر ختم کیا گیا ہے۔
تاہم بتایا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک قومی وطن پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کے حق میں نہیں تھے بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ان کو اس سارے مشاورتی عمل سے لاعلم رکھا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد عمران خان کے قریبی سمجھے جانے والے دو صوبائی وزرا عاطف خان اور شیرام خان کے کہنے پر ختم کیا گیا ہے۔
دونوں وزرا کے گذشتہ کچھ عرصہ سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے شدید اختلافات چلے آرہے ہیں اور جس کی تصدیق دونوں وزرا ذرائع ابلاغ میں بھی کرتے رہے ہیں۔
ادھر بعض حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ کو ڈیڈ لائن دی ہے کہ خیبر بنک کے ایم ڈی کو فوری طور پر برطرف کیا جائے بصورت دیگر وہ حکومت سے الگ ہو سکتے ہیں۔
قومی وطن پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد صوبائی حکومت اب جماعت اسلامی کے رحم کرم پر قائم ہے۔
وزیراعلیٰ کو حکومت برقرار رکھنے کے لیے جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ ملانا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ ان کے الگ ہو جانے کی صورت میں وزیراعلیٰ کو ایوان میں عددی اکثریت برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ خیبر بنک کے ایم ڈی نے جماعت اسلامی کے وزیر برائے خزانہ مظفر سید پر بنک کے معاملات میں اختیارات سے تجاوز کرنے اور بھرتیاں کرنے کے الزامات لگائے تھے اور بعد میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف اخبارات میں اشتہارات بھی چھھوائے تھے۔
صوبائی حکومت نے اس معاملے کی انکوائری بھی کرائی تھی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا جبکہ ایم ڈی بدستور اپنے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔
ادھر کچھ عرصے سے صوبے میں تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات کی خبریں بھی آتی رہی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے مخالف سمجھے جانے والے 12 ایم پیز کا گروپ ایک مرتبہ پھر فعال ہو گیا ہے۔
ان ناراض ارکان میں بیشتر وہ ارکان شامل ہیں جنھوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن جیتا تھا لیکن بعد میں وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔
خبر: بی بی سی اردو ڈاٹ کام