خصوصی رپورٹ
ناروے نوبل ایوارڈ کمیٹی نے اس سال کے نوبل امن انعام ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کے لیے چلائے جانے والی بین الاقوامی مہم کی روح روان تنظیم ’’ایکان‘‘ کو دینے کا فیصلہ کیاہے۔
اس سے پہلے یہ بات زیرگردش تبصروں میں تھی کہ ایران کے جوہری معاہدے کے پیچھے تین اہم کرداروں کے نام نوبل امن انعام کے لیے زیرغور فہرست میں سب سے اوپر ہیں جن میں امریکہ کے سابق وزیرخارجہ جان کیری، ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی اعلیٰ سفارتکار فدریکا موغرینی شامل ہیں۔
ان تبصروں کے برعکس آج جمعہ کے روز نوبل کمیٹی کی خاتون ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ یہ ایوارڈ ایکان تنظیم کو جائے گا جو جوہری اسلحہ کے مکمل خاتمے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
ایکان یعنی ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کے لیے چلائے جانے والی بین الاقوامی مہم کی ویب سائیٹ کے مطابق، یہ ایک سو ملکوں کی مختلف این جی اوز کا ایک اتحاد ہے جو ایٹمی اسلحہ کے انسداد کے لیے کام کررہاہے۔ اس اتحاد کا صدر دفتر سویٹزرلینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں ہے۔
نوبل امن کمیٹی کے ایک بیان میں کہاگیاہے کہ یہ تنظیم ایٹمی اسلحہ کے انسداد خصوصاً ایٹمی اسلحہ پر پابندی کے ایک معاہدے کے حصول کے لیے کام کررہی ہے تاکہ انسانی بنیادوں پر دنیا کو تباہی سے بچایاجاسکے۔ بیان میں مزید کہاگیاہے کہ اس تنظیم کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ ہم اس دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں پر ایٹمی اسلحے کا خطرہ موجود ہے اور کچھ ممالک اپنے جوہری اسلحے کو مزید جدید بنارہے ہیں اور خدشہ ہے کہ کچھ اور ممالک بھی اسلحہ بنانے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے، مثال کے طورپر شمالی کوریا۔ ایٹمی اسلحہ انسانیت اور زمین پر ہرجاندار مخلوق کے لیے خطرہ ہے۔
بیان میں بتایاگیا کہ عالمی برادری اس سے قبل بارودی سرنگ، کلسر بمبوں اور بائیلوجیکل اور کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے لیے اقدامات کرچکی ہے۔جبکہ ایٹمی اسلحہ زیادہ تباہ کن ہے لیکن اس پر مکمل پابندی کے لیے کوئی قانونی اقدامات نہیں ہوئے۔ لہذا ایکان تنظیم اس کےلیے کام کررہی ہے تاکہ ایک ایٹمی جنگ سے روکا جاسکے کیونکہ ایٹمی جنگ سے انسانی جانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتاہے۔
یہ خبر بھی پڑہیں:ایران کے ایٹمی معاہدہ کے کردار نوبل انعام کی نامزدوں میں سرفہرست ہیں
ایکان ایک سو ملکوں کی این جی اوز کا اتحاد ہے جو ایٹمی اسلحہ کی حوصلہ شکنی، اس پر پابندی اور اس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔ سات جولائی کو اقوام متحدہ کے ایک سو بائیس رکن ممالک نے ایٹمی اسلحے پر پابندی کے معاہدے پر رضامندی ظاہرکی ہے۔ البتہ اگر صرف پچاس ممالک بھی اس کی عملی طور پر توثیق کردیتے ہیں تو یہ معاہدہ قابل عمل ہوجائے گا۔